سابق سپیکر قومی اسمبلی اور صدر پی پی وسطی پنجاب راجہ پرویز اشرف نے گیس پائپ لائن پر ایران کے عالمی ثالثی عدالت میں جانے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت فوری طور پر ایرانی قیادت کے تحفظات دور کرے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے بھی کہا گیا ہے کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن بنانی چاہیے۔
پاکستان اور ایران کے مابین گیس لائن معاہدہ 2009ء میں ہوا تھا جس کے تحت 1931ء کلومیٹر پائپ لائن بچھنی تھی۔ 1150 کلومیٹر ایران کے اندر جبکہ 780 کلومیٹر پاکستان کے اندر۔11 مارچ 2013ء کو صدر آصف علی زرداری کے ایران کے دورے کے موقع پر پائپ لائن کی تعمیر کا افتتاع ہوا تھا۔ایران کی طرف سے تعمیر مکمل کی جا چکی ہے جبکہ امریکہ کے دباؤ کے باعث پاکستان نے پائپ لائن کی تعمیر کا آغاز ہی نہیں کیا۔پائپ لائن کی تعمیر کی راہ میں امریکہ رکاوٹ بنا ہوا ہے۔امریکہ کے ایما پر ایران کیخلاف عالمی پابندیاں لگائی گئی ہیں لیکن بہت سے ممالک اس کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت اور معاہدوں پر عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔چین اور کئی یورپی ممالک ایران سے تیل درآمد کرتے ہیں۔بھارت بھی ایسا کرتا ہے۔ بھارت تو ایران میں بندرگاہ بھی تعمیر کر رہا ہے۔اگر امریکہ بھارت پر پابندیوں کی اطلاق نہیں کر سکتا تو پھر پاکستان پر کیوں؟ ایران کے ساتھ گیس پائیپ لائن کے معاہدے کو عملی جامہ نہ پہنانا ایک قومی المیہ ہے۔ایران پاکستان کو 18 ارب ڈالر ہرجانے کا حتمی نوٹس دے چکا ہے۔ اگلے ماہ ایران عالمی عدالت انصاف میں جائو گا تو پاکستان کیلئے اس کیس کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کیا ہماری قرضوں میں جکڑی معیشت اتنی خطیر رقم کی ادائیگی کی متحمل ہو سکتی ہے۔ امریکہ تو ہماری معیشت سنبھالنے نہیں آئے گا اس لیئے بہتر یہی ہے کہ نوٹس پیریڈ کے اندر اندر پاکستان میں گیس پائیپ لائن بچھانے کا آغاز کر دیا جائے جو ہماری ضرورت بھی ہے۔