التال میلی بھی تو ہے!

جماعت اسلامی نے کوئی بہت بڑی مہم چلائے بغیر، امریکہ اور برطانیہ کی گولڈ سمتھ لابیوں سے تعاون لئے بغیر ملک بھر میں کامیاب ترین ہڑتال کر کے دکھا دی۔ ہڑتال کی کامیابی کے آثار کچھ دنوں  پہلے ہی نمایاں ہو رہے تھے، اسی لئے جے یو آئی، اے این پی سمیت کئی جماعتوں اور تاجروں نیز دیگر پیشہ ور تنظیموں نے اس کی حمایت کا پیشگی اعلان کر دیا تھا۔ ایسے میں وہ پارٹی پیچھے کیوں رہتی جو ایک عدد جلسہ کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتی، اس نے بھی ہڑتال کی حمایت کر دی۔ ماضی میں ایک بنک کا اشتہاری نغمہ بہت مقبول ہوا تھا۔ باپ کہتا ہے یہ میرا بنک ہے، ماں کہتی ہے یہ میرا بنک بھی ہے اور چھوٹا سا بچہ اپنی توتلی زبان سے یہ کہتا ہے کہ میلا (میرا) بھی تو ہے۔ بہت ہی بڑبولی لیکن توتلی جماعت نے بھی گزشتہ روز ہڑتال کی حمایت کر دی اور کہا کہ التال میلی بھی تو ہے۔ 
ملک گیر ہڑتال میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی محنت اور رابطہ عوام مہم کی کامیابی کا عمل دخل ضرور ہے لیکن اس میں حکومت کی ’’کفایت شعار‘‘ پالیسی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ کفایت شعاری کی اصطلاح کا شہباز اللغّات میں مطلب یہ لکھا ہے کہ عوام کو کچھ نہ دو، بلکہ ان سے جو ہے وہ بھی چھین لو اور سب کچھ ایلیٹ کلاس پر نچھاور کر دو۔ چنانچہ کفایت شعاری کی پالیسی کے تحت ایوان وزیراعظم کے اخراجات میں دوگنا، ایوان صدر کے اخراجات میں ساڑھے تین گنا اضافہ کر دیا گیا۔ بہت زیادہ تنخواہیں لینے والوں کی تنخواہ میں اڑھائی گنا اضافہ الگ کیا گیا، دیگر مراعات الگ بڑھائی گئیں مراعات یافتہ صنعت کاروں بڑے جاگیرداروں اور سیٹھوں پر مراعات کی پھوار پہلے سے زیادہ تیز رفتار ہو گئی ہے جبکہ کفایت شعاری کی پالیسی کے تحت یوٹیلٹی سٹورز بند کر کے ایک ایسا کارنامہ کیا گیا ہے جس کی تعریف ممکن ہی نہیں۔ سنا ہے وزیر اعظم ان دنوں فکر فردا میں مصروف ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ بجلی پر نیا ٹیکس کس نام سے لگایا جائے۔ یعنی نیا ٹیکس تو لگنا ہی ہے، نام کیا ہو، یہ طے ہو رہا ہے کیونکہ یہ طے ہے کہ سب کچھ نام ہی میں تو رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اپنی عدم کارکردگی کے اشتہارات میں ریکارڈ اضافے کر رہی ہے۔ کارکردگی میں کیا رکھا ہے، اشتہارات چھپیں گے تو نام ہو گا، سب کچھ نام ہی میں تو رکھا ہے۔ مسلم لیگ ن کی یہ چوتھی حکومت ہے لیکن پہلی تین حکومتوں کے برعکس، اس بار کام پر نہیں نام پر زور ہے۔ اللہ کرے ناموری اور زیادہ! 
______
ایف بی آر کے سربراہ نے کہا ہے کہ کوئی کچھ بھی کرے، تاجر دوست سکیم ہر صورت نافذ ہو گی۔ ادھر وزیر اعظم کے کوارڈی نیٹر کا بیان آیا ہے کہ تاجروں کے دبائو میں نہیں آئیں گے یعنی تاجر دوست سکیم ضرور نافذ کریں گے۔ 
یہ تاجر دوست سکیم کون سی ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ ناچار شہباز اللغّات سے رجوع کیا۔ وہاں دوست کے معنے دشمن کے لکھے تھے۔ یوں بات سمجھ میں آئی اور یہ بھی سمجھ میں آ گیا کہ وزیر اعظم آخر کیوں ہر دوسرے روز یہ بیان دیتے ہیں کہ عوام دوست پالیسیاں جاری رکھیں گے۔ 
______
ایک ن لیگی واقف کار سے ملاقات ہو گئی۔ فرمانے لگے، حکومت کو اتنا کریڈٹ تو دیں کہ اس نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ عرض کیا، آپ نے کب بچایا۔وہ تو حافظ صاحب کی پالیسیوں اور محنت نے بچایا۔ حیران ہو کے پوچھنے لگے کون حافظ صاحب؟۔ وہی معاملہ گویا ہو گیا کہ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔ جل کر عرض کیا وہی حافظ شیرازی۔ بولے اب یہ کون ہے۔ انہیں بتایا کہ جس نے بحالی ہندوش بخشم سمرقند بخارا والا شعر لکھا تھا۔ پوچھنے لگے بخارا سمرقند بخشم کا کیا مطلب ہے، کہا ، مراعات یافتہ طبقے پر مزید مراعات کی بارش کرنا۔ کہنے لگے پتہ نہیں کیا بول رہے ہو، چلو چھوڑو چائے پلائو۔ 
______
خبر آئی ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھا کر 23 کرنے والی ہے۔ اس پر پی ٹی آئی نے دہائی مچائی کہ دیکھو دیکھو، حکومت اپنے جج لا رہی ہے۔ ایک یوتھیا لے نے راقم کو فون کیا اور بولا اس دھاندلی پر بھی کچھ لکھو گے کہ نہیں۔ عرض کیا ضرور لکھوں گا لیکن پہلے یہ بتائو کہ اس لکھے میں آپ کے قائد انقلاب کا وہ فقرہ بھی حوالے کے طور پر دے دوں کہ نہیں جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ حکومت پی ٹی آئی کے ججوں کو تنگ کرنا چاہتی ہے۔ جواب دینے کے بجائے عزّت ماب یوتھیالا صاحب نے فون ہی بند کر دیا۔ حالانکہ رائے ہی تو پوچھی تھی۔ 
______
مشیر قانون بیرسٹر علی ملک نے کہا ہے کہ عمران خان اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں پٹ رہے ہیں۔ 
کوئی نئی بات نہیں کہی۔ خود پی ٹی آئی کے تمام میڈیا پرسنز کا اتفاق ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کی جتنی قیادت جیل سے باہر سرگرم عمل ہے، ’’کمپرومائزڈ‘‘ ہے۔ یہ کمپرومائزڈ پارلیمانی لفظ ہے، اس کا غیر پارلیمانی ترجمہ ’’دشمن کے ہاتھ بکے ہوئے یا دشمن سے ملے ہوئے‘‘ ہے۔ یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ پختونخواہ گنڈا پور (اسلامی بلیک لیبل شہد والے) کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے اور بار بار کہا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلٹمنٹ کے آدمی ہیں۔ 
کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ یہ ساری ’’کمپرومائزڈ‘‘ پلٹن آئی کہاں سے؟۔ 
جواب سادہ اور غیر متنازعہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی تقرری خود خان صاحب نے کی اور خان صاحب وہ لیڈر ہیں جن کے بارے میں پی ٹی آئی کے عقیدت مندوں کا کہنا ہے بلکہ دعویٰ ہے بلکہ ایمان ہے کہ ان کے جیسا ’’وژن‘‘ والا کوئی اور لیڈر دنیا میں آج تک پیدا ہوا ہی نہیں۔ وہ تو اتنے صاحب بصیرت اور بصارت ہیں کہ دیوار کے پار دیکھ لیتے ہیں۔ واقعی اس وژن، اس بصیرت اور اس بصارت کے کیا کہنے۔ 
ٹی وی چینلز پر چھائے ہوئے پی ٹی آئی کے میڈیا پرسنز نے اس سے ملتی جلتی بات خان صاحب کے دور حکومت میں بھی کہی تھی۔ ان دنوں حکومت ہر شعبے کا بیڑہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر غرق کر رہی تھی تو یہ میڈیا پرسن بالاتفاق اور باجماعت کہا کرتے تھے کہ خان صاحب کی بصیرت بصارت وژن اور قابلیت کا کوئی جوڑ نہیں لیکن ان کی ٹیم ساری کی ساری نالائقوں اور بدعنوانوں پر مشتمل ہے۔ کپتان بے قصور، سارا دوش نالائق ھڈحرام اور کرپٹ ٹیم کا ہے۔ 
اس سوال کا جواب تب بھی کسی میڈیا پرسن نے نہیں دیا تھا کہ اتنے نالائق، ھڈحرام اور کرپٹ افراد کا انتخاب کس ’’وژن‘‘ کے تحت کیا گیا تھا اور کس نے کیا تھا؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...