اسمبلیاں احسن طریقے سے کام کر رہی ہوتیں تو ممیو جیسے معاملات عدالت میں نہ آتے‘ حقائق چھپانے نہیں دینگے: چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت +نوائے وقت نیوز + نیٹ نیوز + این این آئی) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ اگر اسمبلیاں احسن طریقے سے کام کر رہی ہوتیں تو میمو جیسے معاملات کو سپریم کورٹ میں نہ لایا جاتا، جس طرح کرائے کے بجلی گھروں، ریلوے اور دیگر اداروں سے متعلق معاملات سپریم کورٹ میں لائے گئے اسی طرح میمو سے متعلق بھی حقائق کو چھپانے نہیں دیا جائیگا۔ سپریم کورٹ میں میمو گیٹ سکینڈل کیس کی سماعت کے دوران حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے دلائل کے دوران قانونی نکات بھی پیش کئے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا بنیادی حقوق کا اہم سوال یہ بھی ہے کہ حق متاثر ہو تو عدالت حکم دے معاملہ حقائق پر مبنی ہوناچاہئے محض مفروضے پر مبنی نہیں ہونا چاہئے۔ درخواست گزار کی نیک نیتی کو بھی دیکھنا ہوگا۔ سول، ملٹری کشیدگی میں میرے موکل کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم ہاﺅس اجلاس میں آپ کے موکل نے استعفیٰ دیا۔ حسین حقانی نے اجلاس میں استعفے سے متعلق بیان حلفی میں انکار بھی نہیں کیا۔عاصمہ جہانگیر نے جواب دیا میرے موکل نے لکھا کہ اس کو اس اجلاس میں کچھ دیر کیلئے بلایا گیا۔میرے موکل نے اجلاس سے قبل 16نومبر کو صدرکو خط لکھ کر استعفیٰ دینے کا کہہ دیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آرٹیکل19 اے کا مطلب اطلاعات تک رسائی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کوئی تحقیقات کا مطالبہ کرے تو عدالت کیا کرے؟ عاصمہ جہانگیر نے کہا عوامی اہمیت اور بنیادی حقوق کی حدود کا تعین کرنا ہوگا۔تحقیقات کیلئے ہم تیار ہیں۔معاملہ سیاسی ہے آئی ایس آئی کے چیف مقدمہ لے کر آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا سیاسی اور غیر سیاسی کی تفریق واضح کریں یہ ملکی سالمیت کا معاملہ ہے۔سیاسی کیسے ہوسکتا ہے۔ملکی خود مختاری اور سلامتی ہر شخص کا بنیادی فرض ہے۔صدر نے میمو سے متعلق جواب نہیں دیا اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ عاصمہ جہانگیر نے جواب دیا اگر الزام لگتا ہے کہ حسین حقانی نے پاکستان کی جانب سے خط لکھا تو کیس صدر کے مواخذے کا منتظر ہے۔جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہم صرف میمو تک محدود ہیں اگر اسمبلیاں اپنا کام احسن طریقے سے کر رہی ہوتیں تو میمو جیسے معاملات سپریم کورٹ میں نہ لائے جاتے۔ میمو سیاسی نہیں ملکی بقاءکا مسئلہ ہے، میمو کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اور عاصمہ جہانگیر کے درمیان دلچسپ مکالمہ بازی اور اشعار کا بھی تبادلہ ہوا۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا میرے ساتھ وہ سلوک نہ کریں ”آٹا گوندھتی ہلتی کیوں ہے“ چیف جسٹس نے کہا آپ عدالت پر یقین کریں عاصمہ جہانگیر نے کہا یقین تو مجھے اپنے خاوند پربھی ہے لیکن میں اپنے حقوق اسے نہیں دے سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا اگر ایسی بات ہے تو پھر پتہ نہیں ہمارے حقوق کس کے پاس ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے کیا انتظامیہ کو ہدایت دیں تاکہ حقائق عدالت میں لائے جائیں۔ عاصمہ جہانگیر نے جواب دیا جی ہاں ! حکومت کے پاس اس معاملے میں جو کچھ ہے یہاں لے آئے۔ جسٹس اظہر نے کہا کہ میمو کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے کا ریکارڈ اٹارنی جنرل سے مانگا لیکن کچھ نہیں لایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں کئی تحقیقاتی کمشن بنے لیکن معاملات کو دبا دیا گیا۔جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہمارا قلم آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا آپ کے ہاتھ میں قلم ہے جو چاہیں فیصلہ کر سکتے ہیں۔میرا کام تو عدالت کی معاونت کرنا ہے۔آئی ایس آئی سے پوچھا جائے منصور سے کب اور کیوں رابطے کئے۔چیف جسٹس نے کہا سب سامنے آئے تاکہ فیصلہ کرسکیں کہ کیس سننا ہے یا کمشن بنانا ہے۔عدالت بھی یہی کہہ رہی ہے تمام شہادتیں اور ریکارڈ سامنے آنا چاہئے۔جسٹس اعجاز نے کہا آرٹیکل19 اے سے اطلاعات تک رسائی کا حق حاصل ہوا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو یقین ہوناچاہئے ہم یہاں کھلے ذہن کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے موکل کا حق اتنا ہی عزیز ہے جتنا کسی اور کا۔ مرضی کا فورم تحقیقات کیلئے نہیں ہوتا، فورم قانون کے تحت ہوتا ہے۔عاصمہ جہانگیر نے کہا عدالت بھی میری طرح قانون کی غلام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میمو میں لکھی باتیں درست ہیں یا نہیں فرانزک شہادتیں درکار ہونگی۔کینیڈا والے بلیک بیری میسجنگ کی شہادت ایسے ہی نہیں دیتے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ میرا بنیادی حق وہاں ختم ہوتا ہے جہاں دوسر ے کی ناک شروع ہوتی ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے جواب دیا وہاں تو کچھ بھی نہیں لیکن میرے موکل کی ناک کٹ گئی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کے موکل کی ناک کاٹنی ہوتی تو عدالت اسے باعزت شخص نہ لکھتی۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ منصور اعجاز نے میرے موکل کو5 بار فون کیا لیکن میرے موکل نے ایک بار جواب دیا۔بلیک بیری سے متعلق آگے جا کر عدالت کو کچھ اور بھی بتاﺅں گی۔ آئی این پی کے مطاق 9 رکنی لارجر بینچ نے میمو گیٹ کیس میں حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر سمیت تمام فریقین کے وکلاءکو آج ایک بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے پارلیمانی کمیٹی کے مینڈیٹ کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے جواب داخل کرایا نہ میمو کے وجود سے انکار کیا‘ وفاق نے بیان حلفی میں میمو کی تردید نہیں کی‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے میمو کو حقیقت قرار دیا‘ معاملہ ملکی سلامتی کا ہے کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ سیاسی ہے‘ ملکی سلامتی و خودمختاری کو یقینی بنانا ہر شہری کا بنیادی فریضہ ہے‘ کیس سننے کے لئے سپریم کورٹ کے مینڈیٹ پر انگلی اٹھائی جارہی ہے تو ہمارے پاس ریفرنس کیوں بھیجے جاتے ہیں‘ ہم نہیں‘ آئین اور قانون بادشاہ ہیں‘ آئین کا دفاع کرینگے‘ حسین حقانی کو تو میمو کیس میں سرخرو ہونا چاہئے، عاصمہ جہانگیر نے میمو کو کاغذ کا ٹکرا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی معاملہ ہے ‘ آئی ایس آئی چیف مقدمہ لے کر آئے‘ معاملہ صدر کے مواخذے کی طرف لے جایا جارہا ہے، میمو لکھا گیا تو یہ جرم ہے‘ فوجداری مقدمہ درج ہونا چاہئے لیکن تحقیقات ایسے فورم پر ہوں کہ میرے ساتھ زیاتی ہو جائے تو اس کے خلاف سپریم کورٹ آسکوں‘عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان تناﺅ ہے‘ حسین حقانی کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی پر عدم اعتماد پارلیمنٹ پر عدم اعتماد ہے۔ حسین حقانی نے تحقیقات کیلئے ڈی جی آئی ایس آئی کے سامنے ناک رگڑی‘ درخواست گزار کل برسراقتدار آگئے تو پھر عدلیہ سے متعلق ان کی سوچ کیا ہوگی۔ سپریم کورٹ ڈی جی آئی ایس آئی کو میمو معاملے پر اپنی سرگرمیوں کی تفصیلات سامنے لانے کا حکم دے۔ حسین حقانی کو معلومات منظر عام پر لانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ چاہے 18کروڑ افراد ایک طرف ہوں عدالت ان کا تحفظ کرے گی جن کے حقوق متاثر ہونگے۔ مزید سماعت آج ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن