O قاہرہ کے میدان التحریر کا ایکشن ری پلے اسلام آباد میں ہوسکتا ہے؟

Dec 29, 2012

محمد مصدق

 بینظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان میں مصری ماڈل قابل قبول نہیں، یعنی دوسرے لفظوں میں وہ اپنا انجام حسنی مبارک جیسا نہیں دیکھنا چاہتے لیکن عملی طور پر ایسے اقدام نظر نہیں آرہے کہ وفاقی حکومت 14 جنوری 2013ءکو اسلام آباد کو قاہرہ بننے سے روک سکے۔
مصر کے سابق صدر حسنی مبارک نے صرف اپنے اِردگرد جو کاسہ لیسوں کی فوج ظفر موج اکٹھی کر رکھی تھی، اس فوج نے انہیں ”سب اچھا“ کی خبریں دے کر خواب خرگوش میں رکھا جبکہ اگر حقائق کا غیرجانبداری سے جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ مصر کے کثیرالاشاعت اخبارات بشمول الاہرام میں جولین اسانج کی ”وکی لیکس“ کے انکشاف شائع ہوئے، پوری دنیا کے میڈیا نے اسے خصوصی توجہ دی اگر صدر حسنی مبارک وکی لیکس کے مصر کے بارے میں انکشافات صرف ایک بار پڑھ لیتے تو شاید انہیں اقتدار سے ہاتھ نہ دھونے پڑتے۔ علامہ اقبالؒ نے سچ کہا ہے کہ
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مناجات
یہ ضعیفی صرف جسمانی نہیں ہوتی بلکہ حقائق سے لاعلمی اور چشم پوشی بھی مرگ مناجات کا سبب بنتا ہے۔ جولین اسانج نے حیرت انگیز جرا¿تمندانہ انداز کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کچھ افشا کر دیا۔ مصر کے بارے میں اس نے تفصیل سے سب کچھ بیان کیا۔ جب یہ راز افشا ہوئے، اس وقت سابق صدر حسنی مبارک اقتدار میں تھے۔ جولین اسانج نے انکشاف کیا کہ 2008ءمیں قاہرہ کے امریکی سفارتخانے سے واشنگٹن کیبل بھیجی گئی کہ ایک مصری جوان سے ملاقات ہوئی ہے، جس کا اصل نام ظاہر نہیں کیا جاسکتا، اس لئے اس کا فرضی نام مسٹر ایکس لکھ رہے ہیں۔ اس جوان نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک فول پروف منصوبہ بنایا ہے، جس کے تحت 2011ءمیں مصر کے سربراہ صدر حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔
آخر میں ذمہ دار امریکی افسر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”مجھے نہیں لگتا کہ اس جوان کے پاس کوئی اتنا زبردست منصوبہ ہے۔“ واشنگٹن نے جواب دیا کہ مسٹر ایکس کو امریکہ بھجوایا جائے، چنانچہ مسٹر ایکس امریکہ چلے گئے اور انہوں نے پورے منصوبے سے امریکی اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا اور بتایا کہ تمام انتظامات تسلی بخش ہیں، صرف فوج کی طرف سے مدافعت کا امکان ہے۔
یہ کیبل 2008ءمیں بھیجا گیا تھا اور 3 سال بعد پوری دنیا نے دیکھا کہ مشرق وسطیٰ میں مصر، تیونس اور دوسرے چھوٹے ممالک میں آزادی کی تحریکیں پیدا ہوگئیں۔ قاہرہ کا التحریر میدان تمام سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور بالآخر بظاہر عوام نے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کر دیا اور اسے گرفتار کرلیا گیا اور مقدمہ چلایا گیا۔
مغرب اس انقلابی جھونکے کو بہار عرب کہتا ہے جبکہ ایران کے سربراہ اسے عرب کی خزاں کا نام دیتے ہیں۔
اب اس وقت پاکستان میں اسی ماڈل کی بنیاد لاہور کے جلسہ میں رکھ دی گئی ہے، اسی لئے صدر آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ پاکستان میں مصری ماڈل قابل قبول نہیں لیکن دوسری طرف وفاقی حکومت نے جس طرح سے پنجاب میں صنعتی اداروں کو بجلی اور گیس کی بندش کر دی ہے، اس کی وجہ سے 60 لاکھ مزدور بیکار ہوگئے ہیں۔ وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کو تو چاہئے تھا کہ جمعہ کو اپٹما کے ساتھ ان کے جو مذاکرات تھے، انہیں ہر حال میں فیصلہ کن بناتے لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ آج کے مذاکرات میں وہ کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے اور حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ اب پیر کے دن مذاکرات کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے جوڑا جائے گا۔
ان حالات میں صنعتی اداروں کے بھاری نقصان کے علاوہ 60 لاکھ متاثر ہونے والے مزدور اپنے اندر کتنی تلخی محسوس کر رہے ہیں، حکومت کو شاید اس کا احساس نہیں ہے کیونکہ حکومت اس بات سے مطمئن نظر آتی ہے کہ انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا ہے، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور غریب اب غریب تر ہوگیا ہے۔

مزیدخبریں