پشاور ایف آر (خودمختار علاقے) میں تین چیک پوسٹوں پر شدت پسندوں کے حملے میں دو سکیورٹی اہلکار جاںبحق، ایک زخمی اور 33 اغوا ہو گئے۔پاکستان میں دہشتگردی میں اندرونی عناصر ملوث ہیں، ان کے خاتمے کےلئے کو ئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ تحریک طالبان کے رہنما امیر عصمت اللہ معاویہ نے حکومت پاکستان کو جنگ بندی اور مصالحت کی مشروط پیشکش کی ہے ۔مذاکرات کرنے میں حرج نہیںلیکن کس بات پر؟ کیا ریاست کیلئے خطرہ بننے والوں سے مذاکرات کیے جاسکتے ہیں؟ جن لوگوں کی لڑائی امریکہ سے محض برائے نام جبکہ پاکستان کے خلاف پوری تیاری سے لڑی ہو،ان سے مذاکرات صرف ہتھیار ڈالنے پر ہی ہوسکتے ہیں۔ ہتھیار اٹھائے گئے ہیں تو بندوقوں کا رُخ ہماری جانب ہے۔سکیورٹی اہلکار اور بہادر فوجی اغوا ہوتے ہیں جو پاکستان سے وفاکی قسم کھا کر وردی پہنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی ہمدردی پاکستانی فوجیوں اور پاکستان کے جھنڈے سے ہے جو افراد انکے خلاف اسلحہ اٹھاتے ہیں وہ دشمن نہیں تو اور کیا؟ ایسے دوستوں کے ہوتے ہوئے دشمنوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔مذاکرات معاملات کو درست کرنے کےلئے یہ بھی ایک حکمت ِ عملی ہے ۔ جس جنگ کو غیر ہماری جنگ قرار دیکر ہم پر حملہ کر رہے ہیں،اصل میں انہیں دلچسپی افغانستان میں نہیں توپاکستان حکومت کو یرغمال بنانے میں کیوں ہے؟ شدت پسندوں کا پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملہ ، اہلکاروںکا جاں بحق اور اغوا ہونا شدید افسوسناک ہے۔ مذاکرات کی پیشکش میں یہ عندیہ صاف دیا گیا ہے کہ مذاکرات شروع بھی ہوئے توطالبان اس قسم کی کارروائی سے باز نہیں رہیں گے۔ مذاکرات کا آپشن ختم نہیں ہونا چاہئے لیکن شروعات جنگ بندی اورمغوی اہلکاروں کی رہائی سے ہوناچاہئے۔