کیلنڈر پر مہینہ خواہ کوئی ہو، پاکستان میں مارچ کا مہینہ مقبول ہے۔ بارہ مہینے ”مارچ“ کی بات ہوتی ہے۔ مارچ کا دوسرا مفہوم ”دھمکی“ ہے۔ چالیس سے زائد مذہبی و سیاسی جماعتوں نے کراچی میں جاری دہشت گردی، قتل و غارت گری کی ذمہ داری متحدہ قومی موومنٹ پر عائد کر دی ہے۔ دفاع پاکستان کونسل نے کراچی میں امن کے قیام کے لئے 11 جنوری کو اسلام آباد تک مارچ کا اعلان کیا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کے رہنماﺅں نے کہا ہے کہ پی پی پی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی ان کے ساتھ بیٹھ جائیں تو کراچی کے معاملات حل کئے جا سکتے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل صرف کراچی میں امن کے لئے لانگ مارچ کا اعلان کرتی ہے جبکہ ایم کیو ایم پورے پاکستان کے امن کے لئے مارچ کا ارادہ رکھتی ہے۔ برطانوی اور کینیڈین شہری برادران الطاف حسین اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے زیر سایہ ایک نئے گٹھ جوڑ کا (بندوبست) کیا جا چکا ہے۔ الطاف حسین نے انتخابات کو مشروط کرتے ہوئے کہا کہ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، الیکشن نہیں ہونے چاہئں۔ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے امریکہ کی (مخلصانہ) خدمات کے باوجود دہشت گردی میں کمی نہیں آ سکی۔ دہشت گردی ختم کرنا مقصود ہوتا تو امریکہ سے زیادہ کسی ملک کی حکومت طاقتور نہیں۔ الطاف حسین نے الیکشن کو دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ مشروط کر کے الیکشن کے التواءکی بدگمانی کو یقین میں تبدیل کر دیا ہے۔ امریکہ جو کام بارہ سال میں نہیں کر سکا، پاکستان کے لئے چند ہفتوں یا مہینوں میں کیوں کر ممکن ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان لوٹ آئے ہیں، الطاف حسین کے حالات بھی انہیں جلد وطن واپس لے آئیں گے۔ علامہ طاہر القادری کا بیس لاکھ کا جلسہ دہشت گردوں کی نظر سے بد سے محفوظ رہ سکتا ہے تو الطاف حسین کو زندگی کی ضمانت کیوں نہیںمل سکتی۔ علامہ چالیس لاکھ کا مجمع لے کر بھی اسلام آباد چل دیں تب بھی ایک پٹاخہ نہیں پھٹے گا۔ پاکستانیوں کو دہشت گردی سے زیادہ دہشت گردی کے (چینل) کے بارے میں تشویش لاحق ہے جس کا سراغ آج تک نہیں لگایا جا سکا اور جس کے سامنے پاکستان کے تمام ادارے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ علامہ طاہرالقادری اور الطاف حسین کے پاس فنڈز کی کمی نہیں اور نہ ہی جاں نثاروں کی کمی ہے، دہشت گردی کا بھی خدشہ نہیں لہٰذا دفاع پاکستان کونسل کو ”ریاست بچاﺅ برادران“ کے ساتھ مل کر امن کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ ان کا ایجنڈا بھی امن ہے تو پھر یہ الگ الگ ٹرینوں پر سوار کیوں ہیں؟ دفاع پاکستان کونسل کراچی میں بدامنی کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو سمجھتی ہے لیکن علامہ طاہر القادری ایسا نہیں سمجھتے۔ علامہ قادری اور الطاف حسین دہشت گردی کے خلاف عزم رکھتے ہیں اور الیکشن سے پہلے ریاستی نظام اور دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“ ۔ پہلے دہشت گردی ختم کرو اور پھر الیکشن کراﺅ یعنی سب اپنے اپنے گھروں کو جاﺅ۔ بیرونی طاقتوں کے غلام ہیں جبکہ پاکستان کی اصل طاقت اس کے عوام ہیں۔ بیرونی طاقتوں کے عزائم کے سامنے اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ پاکستان کے غیور عوام ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں سکیورٹی ادارے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں، نہ ہی گھر میں ان کا احترام باقی رہا اور نہ ہی باہر والے خوش ہیں۔ باہر والوں کا مذہبی قائدین اور سیاستدانوں پر بھی بھروسہ نہیں رہا۔ عوام کو ساتھ لے کر چلنے کا ایک نیا بندوبست کیا جا رہا ہے، عوام وار آن ٹیرر سے مکمل تائب ہو گئے تو پورا نظام ہی (تبدیل) ہو جائے گا۔ بظاہر نیا بندوبست کامیاب دکھائی دے رہا ہے مگر عوام کرائے کے جلسوں اور جلوسوں سے جلد بیزار ہو جاتے ہیں جبکہ نظام میں تبدیلی عوام کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔ عوام کسی مخلص قائد کے منتظر ہیں۔ علامہ طاہر القادری کو بطور مسیحا بھیج دیا گیا ہے اور بھائی الطاف حسین کو ان کا معاون بنایا گیا ہے۔ علامہ اور الطاف حسین میں نیچرل الائنس ہے۔ دونوں کی شہریت دہری ہے مگر شخصیت ایک ہے۔ کراچی میں امن کے لئے لانگ مارچ کرنے والے پشاور کا امن بھی شامل کر لیں۔ مرنے والے کے لئے جب فاتح خوانی کی جاتی ہے تو دعا میں پوری اُمت مسلمہ کو شامل کر لیا جاتا ہے۔ پاکستان کا کوئی شہر اور علاقہ دہشت گردی کے واقعات سے محفوظ نہیں۔ علامہ کا جلسہ تو خیر و عافیت سے ہو گیا مگر پشاور میں دھماکوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ دو روز پہلے بھی پشاور میں تین چیک پوسٹوں پر حملہ کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف بولنے والے کی زبان بند کردی جاتی ہے، لڑکیوں کی تعلیم کے لئے آواز اٹھانے والی کو گولی مار دی جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بیس لاکھ کا مجمع محفوظ رہا مگر دہشت گردی کا معمہ مزید الجھتا جا رہا ہے۔ علامہ اینٹی دہشت گرد مشہور ہیں، دہشت گردوں کے خلاف فتویٰ دے چکے ہیں بقول ان کے دہشت گرد ان کے خون کے پیاسے ہیں مگر وہ پاکستان آ چکے ہیں اور جلسہ بھی کر کے دکھا دیا اور دہشت گرد ان کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ ریاست بچاﺅ برادران کا اگلا جلسہ پشاور میں منعقد ہونا چاہئے تاکہ دہشت گردی بے نقاب ہو سکے۔
”ریاست بچاﺅ“ اور دفاع پاکستان کونسل !
Dec 29, 2012