نمائندہ نوائے وقت نے خبر دی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے ایم ایس، پرنسپل صاحبان کی عدم توجہ اور کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان (CPSP) کے چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسیوں میں آنیوالے مریضوں کو میڈیسن اور سرجری کے ڈاکٹرز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہُوا ہے جس کے باعث ایمرجنسیوں میں شرح اموات میں 10 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ خبر کے مطابق لاہور کے میو، جنرل، چلڈرن، سروسز، گنگا رام اور جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں صرف میڈیسن اور سرجری کے ڈاکٹرز ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ کارڈیالوجی، یورالوجی ، گیسٹرو انٹرالوجی سمیت دیگر شعبوں کی کسی بھی قسم کی معاونت نہیں ہے جبکہ دلچسپ امر یہ ہے آج تک مذکورہ شعبوں کے ڈاکٹرز کا ایمرجنسی میں ڈیوٹی روسٹر بنا ہی نہیں۔ مریض ایمرجنسی میں تڑپتا رہتا ہے۔ ڈاکٹرز کے ذمہ دار حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ایم ایس و پرنسپل کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
برادرم ندیم بسرا سے شاید چُوک ہو گئی کہ انہوں نے اپنی خبر/ اطلاع میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور شیخ زید ہسپتال کے نام شامل نہیں کئے۔ چلئے ان کا نام میں درج کئے دیتا ہوں کیونکہ پرانا قابل چیلنج مشاہدہ بتاتا ہے کہ شہر کے تقریباً سبھی چھوٹے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں غفلت و لاپرواہی کا وہی مظاہرہ کیا جا رہا ہے جس کا تذکرہ حسبِ بالا خبر میں کیا گیا ہے۔ مَیں میو ہسپتال کے سابق ایم ایس اور موجودہ ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر زاہد، پرویز کو اچھی طرح جانتا ہوں اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ ان کا شمار تگڑے، بے داغ اور صاف ستھرے لوگوں میں ہوتا ہے، انہوں نے میو ہسپتال کو خوب سے خوب تر بنانے کیلئے دن رات کام کیا اور کامیاب ہوئے ان کی کامیابی کا اندازہ موجودہ میو ہسپتال کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے مگر مجھے یہ جملے نہایت دکھ کے ساتھ بیان کرنے پڑ رہے ہیں کہ میں نے اکثر انہیں سینئر ڈاکٹرز اور پروفیسرز کے سامنے بے بس ہی پایا ہے۔ جب تک پروفیسر جاوید اکرم علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل اور زاہد پرویز ایم ایس جناح ہسپتال مذکورہ کے معاملات پر ان کی گرفت مضبوط رہی۔
سینئر ڈاکٹرز و دیگر سٹاف انڈر کنٹرول رہا مگر ان کے جانے کے بعد جناح ہسپتال کا کوئی والی وارث نظر نہیں آ رہا۔ جناح ہسپتال کے تقریباً سبھی معاملات اُلٹ پُلٹ ہو چکے ہوئے ہیں۔ مریضوں کا کوئی پُرسان حال نہیں، توجہ دینے پر درجنوں سکینڈلز سامنے آنے کو تیار ہیں، سینئر ڈاکٹرز کا زبردست فقدان نظر آ رہا ہے۔
شیخ زید ہسپتال کل تک وفاقی حکومت کے زیر انتظام چلتا رہا۔ اس کا شمار بڑے، کامیاب اور قابل اعتماد ہسپتالوں میں ہوتا رہا ہے۔ سینئر ڈاکٹرز مریضوں کو ٹائم دیا کرتے تھے مگر آج شیخ زید ہسپتال مختلف شکل اختیار کر چکا ہوا ہے۔ غریب اور سفید پوش مریضوں کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ چیئرمین ڈاکٹر ظفر اقبال بلاشبہ ایک شریف النفس انسان اور قابل مسیحا ہیں مگر آﺅٹ آف کنٹرول مافیا ان کی صلاحیتوں کے مقابلے میں بھاری اور تگڑا نظر آتا ہے۔ذکر ہو رہا تھا ہے سرکاری ہسپتالوں کے سینئر ڈاکٹروں کی بے توجہی کا جس کے باعث غیر سفارشی مریض تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ اس سے بڑی کیا مثال دوں جو اس سچ کو ثابت کر سکے کہ سرکاری خزانے سے بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کرنے والے مسیحا متوسط، سفید پوش اور غریب مریضوں کا علاج نہیں کرتے۔ سینئر ڈاکٹرز مافیا اس قدر منہ زور اور بے لگام ہو چکا ہے کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے احکامات کو ہَوا میں اُڑانے لگا ہے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ پانچوں انگلیاں ایک جیسی اور برابر نہیں ہوتیں اسی طرح مَیں یہ بات بھی ببانگِ دہل کہنے کو تیار ہوں کہ میرے شہر کے سارے سینئر مسیحا ظالم اور بھیڑیے نہیں ہیں۔ میں ذاتی مشاہدے کی روشنی میں کئی فرشتہ صفت ڈاکٹروں کے نام پیش کر سکتا ہوں جو دل کی گہرائیوں سے دکھی و بیمار انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ان باضمیر مسیحاﺅں میں پروفیسر ڈاکٹر بلال زکریا، پروفیسر ڈاکٹر انوار اے خان، ڈاکٹر زاہد پرویز اور پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ میں جانتا ہوں کہ مذکورہ مسیحاﺅں نے آج بھی اپنے دروازے سے دکھی اور سفید پوش مریضوں کیلئے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔
بے لگام مسیحا
Dec 29, 2013