گزشتہ ایک دہائی سے پاکستانی قوم جس فکری مغالطے اور ذہنی انتشار کا شکار ہے اس سے چھٹکارا پائے بغیر نہ تو ہم ایک با وقار قوم بن سکتے ہیں اور نہ ہی پاکستان عالمی منظر نامے میں کوئی قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔کسی بھی فرد یا قوم کا عمل اس کی طرز فکر کا غماز ہوتا ہے۔ جس طرح ہر شخص کی انفرادی سوچ اسکے عمل کی بنیاد بنتی ہے اسی طرح ایک قوم کی اجتماعی سوچ اس کے عمل اور منزل کا تعین کرتی ہے۔ان ہی عوامل کی وجہ سے ہم میں فکری اور عملی اتحاد کا فقدان ہے۔ قوم فکری اور عملی اعتبار سے مختلف گروپوں اور مفاد پرست گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔معذرت کے ساتھ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم ایک قوم کی بجائے ایک ہجوم ہیں کبھی تو اس ہجوم کو "ڈنڈے کی طاقت" سے ہانکا جاتا ہے کبھی اس ہجوم کے جذبات کو نعروں کے ذریعے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ ہجوم کا ایک حصہ مذہبی استحصال کا شکار ہو کر جنون کو منزل سمجھ لیتا ہے۔جبکہ دوسرا حصہ دولت کو خدا سمجھ کر تمام اقدار بھلا دیتا ہے۔ اسی تاریخی پس منظر نے ہمیں منتشر ،بددل اور بے حس قوم بنا دیا ہے۔
فرقہ بندی ،جہاد اور شریعت کے نفاذ کے نام پرملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اور عالمی میڈیا اس مسئلہ کو جس طرح اچھال رہا ہے اس سے پوری قوم کو سبکی محسوس ہو رہی ہے تا ہم حکومت اپنے تئیںمشکلات پر قابو پانے کی پھر پور کوشش کر رہی ہے جبکہ عام شہری اپنی جگہ پریشان کہ ہمارا معاشرہ اب کس ڈگر پر چل نکلا ہے۔اسلامی تعلیمات کیمطابق جہاد ایک مقدس فریضہ ہے۔مفسرین کیمطابق شریعت اسلامی میں جہاد صرف تین مقاصد کیلئے کیا جا سکتا ہے۔ اول فتنہ کو ختم کرنے کیلئے دوئم کلمہ حق کی حمایت کرنے کیلئے اور سوئم مظلوم کا ساتھ دینے کیلئے ،لیکن یہ سب کام ایک مرکزی قیادت کے تحت کیا جاتا ہے محض گروہ بندیوں کی بنیاد پر اعلان جہاد کسی طرح بھی قابل تائید نہیں۔ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ پاکستان کی 66سالہ تاریخ میں اس وقت ہم ایک ایسے ہی مقام پر ہیں جہاں ہمیں اپنے قومی تشخص، سیاسی نظام اور معاشرے کی ہیت کو نئے سرے سے تشکیل دنیا پڑے گا ورنہ اقوام عالم میں ہم اپنا مقام کھو بیٹھیں گے۔یہ بات تجزیہ طلب ہے کہ ہم اس صورتحال تک کیسے پہنچے۔ اس حوالے سے ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ کیا ایک نسل نے دوسری نسل کو معاشرتی ذمہ داریاں حوالے کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ کیا ہماری آئندہ نسل دنیا کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق قومی اور نظریاتی تشخص کو آگے لے جانے کی امین ہے ۔
نامور دانشور اور مورخ ابن خلدون نے فلسفہ تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تیس سال کے عرصے میں ایک نسل دوسری نسل پرحاوی ہو جاتی ہے۔ نسل اس نوجوان طبقے کو کہا جا تا ہے جو معاشرے کے ہر شعبے میں اپنے بڑوں سے بتدریج ذمہ داریاں سنبھا لتی ہے ۔ سب ہی کہتے ہیں کہ کسی قوم کے مستقبل کااندازہ لگانا ہو تو اس ملک کے نوجوانوں کی سوچ اور عمل کا احاطہ کر لیں تو یہ جاننا مشکل نہ ہو گا کہ آئندہ برسوں میں یہ معاشرہ اور ملک کس ڈھب پر جائیگا۔
علم نفسیات اور سماجیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیںکہ انسان سترہ سے ستائیس سال کی عمر میں سب سے زیادہ بے خوفی اور جرات کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ اس عمر میں کھیل کے میدان سے لیکر موت کے میدان تک بے خطر کود پڑتا ہے۔ اسی عمر میں "ہونہاربروا کے چکنے چکنے پات"کا اندازہ بھی لگایا جاتا ہے۔یہی وہ عمر ہے جب نوجوانوں میں انقلاب کی سوچ پیدا ہوتی ہے معاشرہ کی اصلاح اور اس کو تباہ کرنے یا انتقام کے جذبوں کوجلا ملتی ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس عمر کے نو جوانوں کو کیا دے رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ قوموں کی تشکیل دو جگہ ہوتی ہے ایک ماں کی گود یعنی گھر کی تربیت اور دوسری تعلیمی ادارے یعنی تعلیمی نظام۔دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک کی مائیں کتنی تعلیم یافتہ ہیں۔ان کا دینی اور دنیاوی علم کس سطح کا ہے اور کیا انکے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ گھر داری ،میاں اور ساس کو خوش رکھتے ہوئے بچوں کی تربیت کیلئے وقت نکال سکتی ہیں یقینا اکثریت کی رائے یہی ہو گی کہ ایسا آسانی سے ممکن نہیں۔دوسری طرف یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا ہمارے تعلیمی نظام میں اساتذہ اور نصاب نوجوانوں کو ایک مربوط ہم آہنگ اور مشترکہ منزل حاصل کرنے کیلئے قومی تقاضوں کیمطابق تربیت دے رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بیک وقت کئی طرح کا تعلیمی نصاب اور مختلف الخیال اساتذہ نئی نسل کی تربیت میں مصروف عمل ہیں۔
ایک طرف ٹاٹ سکول ہیں جن کے اساتذہ کی تعلیمی حیثیت ان کے انداز فکر ، انکی معاشی مشکلات اور انکے رول کے حوالے سے ہر روز نئی نئی کہانیاں اور حقائق سامنے آتے ہیں۔دوسری طرف انگلش میڈیم سکولز ہیں جن میں آغاز سے ہی لبرل اور آزاد خیال ذہن ترتیب پا رہے ہیں۔تیسری طرف ایسے تعلیمی ادارے ہیںجنہیں مڈل کلاس کے تعلیمی ادارے کہا جا سکتا ہے جیسے پبلک سکول یا ماڈل سکول اور کالجز۔ چوتھی طرف ایسے تعلیمی ادارے ہیں جو دینی علوم کی تعلیم دے رہے ہیں انہیں"مدرسہ " کہا جاتا ہے۔
نصف صدی سے زائد وقت گزرنے کے با وجود بد قسمتی سے ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کہ ہمارے ہاں میڈیم آف انسٹرکشن کیا ہو گا؟اردو یا انگلش!درسی کتابوں کا نصاب کیا ہونا چاہیئے؟ان حقائق کا جائزہ لینے سے ایک خوفناک مستقبل نظر آتا ہے ان اداروں سے سال ہا سال سے مختلف سوچ اور ذہنی طور پر انتشار کا شکار قوم تشکیل پا رہی ہے۔
اگر ہم مغربی اور اشتراکی ممالک حتیٰ کہ عرب ممالک کے نظام تعلیم اور خاندانی نظام کا تقابلی جائزہ لیں تو یہ بات نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ ان ممالک نے اپنی قوم کے انداز فکر کو کنفیوژن کا شکار نہیں ہونے دیا۔ ہمیں انکی سوچ،اخلاقی اقدار اور قومی مقاصد سے تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے آنیوالی نسلوں کو ذہنی مغالطے میں نہیں ڈالا۔ ہمارے پاس سب ہی کچھ ہے لیکن بدقسمتی سے قومی اور اخلاقی سوچ میں یگانگت اور ہم آہنگی نہیں۔ یہ کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ اس پر قومی سطح پربحث کی ضرورت ہے۔جس طرح کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی کے لیے معاشی خوشحالی،تکنیکی اور عملی ترقی کی ضرورت ہے اسی طرح اس قوم کی سوچ اور فکر کو بھی صحیح سمت میں لانا ضروری ہے۔ جب تک طرز فکر درست نہ ہوگا کسی بھی ترقی کا ثمر نہ ملے گا اور نہ ہی معاشرے میں اتحا د اور یگانگت اور یکسوئی پیدا ہو گی۔صاحب علم و فکر اور دانشور تو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے ہی ہیں لیکن قومی سطح پر اسکی ترجیح کا تعین حکومت کی جانب سے کی جانیوالی شعوری کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔
”احوال واقعی .... فکر فردا“
”احوال واقعی .... فکر فردا“
Dec 29, 2013