گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی کی تقریب پر منعقدہ اجتماع سے خطاب کر تے ہوئے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ ہر کام میاں صاحب اکیلے نہیںکر سکتے‘ غربت طالبانائزیشن‘ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے نواز شریف حکومت کا ساتھ دینگے‘ جب سے پاکستان بنا ہے ”بِلا“ آ کر دودھ پی جاتا ہے‘ نوازشریف قابو میں آئے ہوئے ”بلے“ کو نہ چھوڑیں‘ ہم ”بلے“ کو انجام تک پہنچانے میں ان کے ساتھ ہیں‘ ملک کے منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگانا کوئی مذاق نہیں‘ اب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ یا کوئی ڈرامہ رچانے نہیں دینگے‘ ہماری جنگ جس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہے اس کیخلاف تمام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو عوام اور دھرتی کی خاطر ساتھ کھڑے ہونا ہو گا۔ انہوں نے خاص طور پر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ نوازشریف حکومت کو اتنا کامیاب کرے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ایک سو بلین ڈالر ہوں تب جا کر یہ ملک ترقی کر سکتا ہے اور ہم مشکلات سے دور رہ سکتے ہیں۔ دریں اثناءپاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر طالبان کے خلاف جہاد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کیلئے انتہائی کڑی شرائط پیش کیں۔ جن میں طالبان سے ہتھیار پھینکے، دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کا خون بہا دینے اور میثاق مدینہ کی طرح اقلیتوں کی عزت اور احترام کرنے کی بات کی۔ مسلم لیگ (ن) کی طالبان سے مذاکرات کی پالیسی پر انہوں نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اور دہشت گردوں کا نظریاتی خالق ضیاءالحق تھا۔بلاول نے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی شکست پر کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ ہمارے خلاف متحد ہو چکی تھی‘ ہمیں جیتنے نہیں دیا۔ تاہم بلاول نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت کو خطرہ ہوا تو وہ نوازشریف کے ساتھ ہونگے۔ آج ملک و قوم کو دہشت گردی‘ لاقانونیت‘ فرقہ واریت‘ غربت و مہنگائی اور بے روزگاری سمیت بہت سے بحرانوں اور مصائب کا سامنا ہے۔ ایسی مشکلات سے نکلنا اسی صورت ممکن ہے‘ جب سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت ہر حلقہ اور طبقہ متحد ہو۔ اس کیلئے نیک نیتی اور اخلاص پہلی شرط ہے ۔
ہر سال بے بینظیر بھٹو کی برسی کی تقریب سرکاری سطح پر منائی جاتی رہی ہے۔ کل کی تقریب میں سندھ حکومت نے صوبے میں تعطیل کا اعلان کر رکھا تھا۔ سندھ اکلوتا صوبہ ہے‘ جہاں پیپلزپارٹی مئی 2013ءکے انتخابات میں اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکی۔ مسلم لیگ (ن) اس کامیابی کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتی ہے کیونکہ سندھ میں مبینہ طور پر پیپلزپارٹی اور متحدہ نے ملی بھگت کرکے نگران حکومت بنائی تھی۔ بلاول زرداری نے پنجاب میں اپنی شکست کا ذمہ دار پنجابی اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا ہے۔ عمران خان بھی انتخابی نتائج سے مطمئن نہیں‘ وہ ان کو دھاندلی کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ اے این پی اور جے یو آئی (ف) بھی ایسا ہی کہتی ہے لیکن سوائے بلاول کے کسی نے پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی بات نہیں کی۔ بلاول ایک بڑی پارٹی کے معصوم قائد ہیں‘ انکی طرف سے پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی بات سے صوبائی عصبیت کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے صوبوں کے مابین نفرتیں پیدا ہونگی۔ پہلے سے مسائل و مشکلات میں گھرے ملک میں ایسی نفرتوں کی گنجائش کہاں ہے؟
اسٹیبلشمنٹ راتوں رات وجود میں نہیں آگئی‘ اسی اسٹیبلشمنٹ کے ہوتے ہوئے پیپلزپارٹی کو چار مرتبہ حکمرانی کا اختیار ملا ہے۔ بلاول سنجیدگی سے اپنی پارٹی کی حکومت کے پانچ سالہ دور کا جائزہ لیں تو ان کو شکست کی وجوہات کا آسانی سے ادراک ہو سکتا ہے۔ اس حکومت کی شکست کی بڑی وجہ توانائی کا بحران‘ خصوصی طور پر بجلی کی 16 سے بیس گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ تھی‘ اس کا اعتراف پیپلزپارٹی کے کئی رہنما کر چکے ہیں۔ انرجی کرائسز کو بدترین کرپشن کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی عوام کو درپیش نہ صرف مسائل حل نہیں کر سکی‘ بلکہ مہنگائی جیسے کئی مسائل مزید گھمبیر ہو گئے ہیں۔ اگر آئندہ اس نے ڈلیور نہ کیا تو یہ بھی عوام کی نظروں میں پیپلزپارٹی کی طرح راندہ¿ درگاہ ہو جائیگی۔
مجموعی طور پر گڑھی خدابخش میں محترمہ کی برسی کے موقع پر گزشتہ برسوں کے برعکس اس مرتبہ الزام تراشی اور طعن و تشنیع سے گریز کرتے ہوئے اتحاد و اتفاق اور مفاہمت کی بات کی گئی۔ آصف علی زرداری نے نواز حکومت کا کھل کر ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ بلاول نے جمہوریت کو خطرے کی صورت میں نوازشریف کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا۔ سیاست میں مفاہمت کی بڑی اہمیت ہے۔ آصف علی زرداری نے مفاہمت کے باعث اپنی پارٹی کی حکومت اور اپنی صدارت کی آئینی مدت پوری کی۔ موجودہ حکومت بھی مفاہمت ہی کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن مفاہمت کے نام پر قومی مفادات قربان نہیں ہونے چاہئیں جیسا کہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران اربوں روپے کی مالیت کے سکینڈلز سامنے آئے۔ اس وقت کی اپوزیشن قومی دولت کو لوٹنے والوں سے پائی پائی وصول کرنے کے وعدے کر رہی تھی‘ آج اس کرپشن سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ سیاسی مفاہمت اپنی جگہ‘ کرپشن کو تحفظ کسی صورت نہیں دینا چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ہر کرپٹ سیاست دان اور بیوروکریٹ سمیت کسی کے بھی احتساب پر سابق صدر حکومت کا ساتھ دینگے۔ اگر لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میںآئے‘ ٹیکس وصولی کا نظام فول پروف ہو جائے تو آصف علی زرداری کی پاکستان کے ذخائر 100 ارب ڈالر ہونے کی دعا خالق کائنات کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کر سکتی ہے۔
آصف زرداری نے سابق فوجی آمر جنرل مشرف کے احتساب اور انہیں راہ فرار نہ دینے کی بات کی ہے۔ ہمارا المیہ یہ بھی رہا ہے کہ سیاست دانوں کی رکھوالی میں ہی بِلّے دودھ پینے آتے رہے ہیں۔آج کا کونسا سیاست دان ہے‘ جو خود یا اسکے سیاسی و نظریاتی بڑوں نے فوجی بوٹوں کی گرد صاف نہیں کی۔ آج جمہوریت کو مضبوط تر بنانے کا عہد کرنے کی ضرورت ہے۔ سابق آمر کا آئین اور قانون کے مطابق احتساب ہوا تو یقیناً طالع آزما کبھی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش نہیں کرینگے لیکن مشرف پر جو کیس چل رہا ہے‘ اس میں مشرف کے ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے گناہ کو شامل نہیں کیا گیا۔ معاملہ چونکہ عدالت میں ہے‘ اس پر مزید کمنٹس مناسب نہیں‘ تاہم ایک حلقے کی رائے میں اس کیس کو ڈھیلا ڈھالا قرار دیا جا رہا ہے تاکہ مشرف کو محفوظ راستہ مل سکے۔ 12 اکتوبر کے شب خون میں مشرف کے ساتھیوں اور انکے اقدام کو جائز قرار دینے والوں کا احتساب اور حساب بھی ضروری ہے۔ تاہم وزیر اطلاعات پرویز رشید کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ مشرف کو باہر نہیں جانے دینگے‘ انکی والدہ کو لانے کیلئے طیارہ بھجوا سکتے ہیں۔
دہشت گردی پاکستان کی بقاءاور سالمیت کیلئے کینسر اور ناسور بن چکی ہے۔ اسکے خاتمہ کے بغیر ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے‘ نہ ترقی و خوشحالی کے خواب کو تعبیر مل سکتی ہے۔ عسکری و سیاسی قیادت نے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی مقدور بھر کوشش کی ہے لیکن فریق مخالف مذاکرات کیلئے آمادہ نہیں ہو رہا۔ حکومت اب بھی اگر مذاکرات کی بات کرتی ہے تو یہ اسکی طرف سے کمزوری کا اظہار ہے۔ بلاول بھٹو کی شرائط بجا ہیں‘ حکومت ان کو رہنما اصول کے طور پر اپنائے۔ جن لوگوں نے بینظیر بھٹو کی جان لی‘ وہ کسی کی بھی جان لینے سے گریز نہیں کرتے‘ نہ کرینگے۔