کیا دلہن وہ ہے جو جہیز لیکر آئے؟

شفاءرحمن خان
کسی بھی معاشرے میں جہیز کی حوصلہ افزائی کا تصور ممکن نہیں لیکن اکثر اوقات جہیز نہ لانے کی صورت میںگھروں میں چولہے بھی پھٹتے ہیں اور حوا کی بیٹی کو اپنی قیمتی جان سے ہاتھ دھونا پرتے ہیں ۔بد قسمتی سے جہیز جیسی لعنت کو صرف کہنے کی حد تک ہی برا خیال کیا جاتا ہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو عملی طور پر اپنی زندگی میں اسے اےک لعنت سمجھ کر فرسودہ رسم قرار دیتے ہیں بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ ایسے اصولوں کی بنیاد پر کھڑا ہے جن تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ دلہن کے ساتھ ساتھ قیمتی سامان کا تفاضا کیا جاتا ہے اور یہ لوگ ان والدین کا درد تک نہیں سمجھ سکتے جو اپنے دل کا ٹکڑا دیتے ہیں شاید اس کے بعد ان سے کچھ مانگنا بنتا ہی نہیں اگر سمجھا جائے تو ان کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے لڑکے والوں پر کیونکہ پوری زندگی والدین اپنی اولاد کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں اور دنیا کی یہ رسمیں ان کے پاو¿ں کی زنجیر بن جاتی ہے جب وہ اپنی پیاری بیٹی کو کسی کے ہاتھو ں میں سونپتے ہیں۔
آج کے دور میں کمانا دو وقت کی روٹی کمانا بہت مشکل ہے لیکن بیٹی کی شادی کرتے وقت والدین کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اپنی بیٹی کو دین و دنیا کی رسم کے مطابق ہی رخصت کریں۔
اس لئے ضروری ہے کہ اس رسم کو ختم کرنے کے لیے تمام لوگ اپنا اپنا احتساب کریں۔
طلاق کی بڑھتی ہوئی وجہ بھی جہیز ہے اےک محتاط اندازے کے مطابق40 فیصد طلاقوں میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے جبکہ سسرال کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والی 90 فیصد سے زائد خواتین پر ظلم محص اس لئے سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرال والوں کی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ظلم کی چکی میں پستی چلی جاتی ہیں اور اس دنیا سے خاموش ہی چلی جاتی ہیں تاکہ ان کے والدین کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ لوگ کیوں یہ نہیں سوچتے کہ وہ بھی ایک بیٹی کےوالدین ہیں وہ آج جو اپنی بہو کے ساتھ کرتے ہیں کل ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔
جہیز ایک لعنت ہے اور اس لعنت میں ہم سب جانے انجانے میں تھوڑا بہت حصہ ڈالتے رہتے ہیں لہذا ہمیں اپنی اس فرسودہ رسم کا خاتمہ کرنا چاہیے
”جہیز مانگے سے بھیک مانگنا بہتر ہے “

ای پیپر دی نیشن