ہر چیز کا مصرف ہے

کافی دنوں سے ”گلدستہ“ کارنر پر پڑا تھا۔ پھول اور پتیاں اب مرجھا رہی تھیں۔ معمول کی طرح پھینکنے کا سوچا، فوراً ہی ارادہ بدل کر گلدستہ پکڑا اور لان میں پھول، پتے کیاریوں میں بکھیر دئیے۔ سیکنڈز میں لان کا منظر دلکش سہانا ہوگیا۔ اکثریت گلدستوں کو ضائع کر دیتی ہے۔ درختوں، گھاس، پھولوں کی حیات نو، شادابی بڑھانے کے لئے یہی چیز ہم مٹی ملی ہوئی ”پتوں والی خشک کھاد“ کے نام سے بوریوں کے حساب سے مہنگے داموں خریدتے ہیں۔ گلے سڑے پھول، مڑے پتے، سوکھی ٹہنیاں، آج معلوم ہوا کہ کچھ بھی بیکار نہیں ہوتا، جذباتی ہو کر کسی بھی چیز کو ایک دم سے پھینک نہیں دینا چاہئے، ہر چیز کا کچھ نہ کچھ مصرف ہے.... آج ہی احساس جاگا کہ ٹریجڈی بھلے کربناک تھی مگر اس نے قوم، قیادت کو عملاً ”ایک صفحہ پر کردیا جس کو رخصت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں سوجھ رہا تھا، کل تک دشنام دیتے لیڈر، معاشرے کو آگ لگاتے بیانات ایک دم سرد ہوگئے، جن کو ماضی کا بوجھ سمجھ کر اتارنے کی تیاریاں، باتیں تھی، ہوا ہوگئیں۔ ارادہ کر کے بیٹھے کہ آج ہی فیصلے کرنا ہیں، زندگی یا موت، ابھی طے کر کے اٹھنا ہے تو ہر شخص، ہر پارٹی کارآمد گلدستہ بن گئی، بے پناہ قیمتی اثاثہ معلوم ہوئی، چار صوبے، مختلف النوع اکائیاں، کثیرالاقوام قوم کے نمائندے مختلف زبانوں کے حامل ترجمانوں نے سر جوڑئے تو پہلی مرتبہ ”قیادت“ قیمتی گلدستہ کی صورت بن کر ابھری.... کسی نے بھی نہیں دیکھا کہ فلاں اتنے برسوں سے اقتدار میں ہے۔ اب رخصت لے.... فلاں کو حاصل عوامی پسندیدگی کا گراف ڈاﺅن ہو چکا ہے۔ اس کی اب کوئی بات نہیں سننی، سبھی ملک کے حوالے سے متفقہ ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے عزم کیساتھ نظر آتے رہے.... وہ لوگ بھی جو ”68 سالوں“ سے کچھ ڈئلیور نہیں کرسکے.... اب مکمل خاتمے کا خطرہ بھانپ کر نظام کی بہتری، درستگی کی خاطر کچھ نہ کچھ کردار ادا کرنے کے موڈ میں آگئے ہیں، کوئی بھی کام کرنے کے ”3مراحل ہیں“.... ”صاف نیت“ مسئلہ کے حل کی کلیدی چابی ہے۔ پھر ارادہ، اس کے بعد عمل.... اب عمل یہ بنتا ہے کہ موجودہ عمل میں شریک لوگوں کو ایک ”قومی جرگہ“ کا نام دیدیں، سیاستدان، صحافی، دانشور، سکیورٹی، دہشت گردی بابت براہ راست گفتگو سے اجتناب کریں.... یہ جرگہ کامل اختیار، آزادی اور تحفظ کے ساتھ اندرون و بیرون ملک کے تمام متحارب، مخالف اور حامی گروپس (مکمل بغاوت پر آمادہ عناصر کے علاوہ) کو ڈائیلاگ کے ذریعہ ”وفاقی دائرے“ میں امن کے ساتھ واپسی کا راستہ دے طے شدہ فیصلوں پر عمل درآمد کی مدت چند ماہ سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے یہ جماعت تنظیم کے سربراہ سے مسلح ونگز ختم کرنے اور اسلحہ جمع کروانے کا حلف نامہ لیاجائے، صحت مند ریٹائرڈ آرمی آفیسرز اور جوانوں پر مشتمل نئی فورس کو ”پاکستان سکیورٹی فورس“ کا نام دیں، اس فورس کو پورے ملک بشمول ”قبائلی علاقوں، کراچی، بلوچستان اور جنوب پنجاب“ میں تعینات کیا جائے ملک میں 33 سکیورٹی ایجنسیوں کے ہونے کے باوجود حالات دگرگوں ہونے کی وجہ اداروں کی پیشہ وارانہ رقابت، عدم تعاون، باہم رابطہ میں خلا، سقم ہیں مناسب ہوگا کہ تعداد کم کردیں، ایک کے ذمہ صرف اطلاعات کی فراہمی، دوسرے کے ذمہ داخلی و خارجی راستوں کی نگرانی، تیسرے کے ذمہ مکمل سکیورٹی، تحفظ فراہم کرنے کے لئے درکار وسائل، آلات کی بہم رسانی، چوتھے ادارہ کے سپرد انسداد، سرکوبی کا مشن ہو.... فوج کی مکمل نگرانی کے تحت تمام ادارے ”نیکٹا“ کے ماتحت ہوں.... پہلی ترجیح فوری انصاف اور عملدرآمد کو دی جائے.... انصاف اور عدالتی نظام پر یقین رکھنے والی اقوام کا شمار اسوقت ”عالمی بالادست جھنڈے“ کے طور پر لہرا رہا ہے.... سینکڑوں پولیس مقابلے، غیر انسانی تشدد.... لامحدود اختیارات کے باوجود بھی دہشت گردی، جرائم، ڈاکے کم نہیں ہوئے تو کمی، قصور ”فورس“ کے غلط استعمال میں ہے۔ اس کو سیاسی دباﺅ، چنگل سے آزاد ہونا چاہئے.... پولیس کی نااہلیت کا واویلا کرنے والے سن لیں کہ اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ یہ مرے ہوئے مردے کو بھی زندہ کرسکتی ہے (محاورة) بھروسہ تو کریں، آزادی، اختیار، وسائل تو دیں اس کے مصرف کا اعتراف تو کریں.... اربوں روپے کے فنڈز تقسیم ہو کر زیرو ہو جاتے ہیں، زیادہ تعداد کی بجائے سب کو ضم کریں، 4, 5 رہنے دیں.... ان کی صلاحیتوں، اہلیت، استعدادکار بڑھانے کی کاوشیں کی جائیں.... 18ویں ترمیم، کے نتیجہ میں جو محکمے ادارے صوبوں کے حوالے ہوچکے ہیں، وفاقی سطح پر ان کے وزراءدفاتر ختم کردیں.... قومی اداروں کے سربراہان کا تقرر شفاف اور ذاتی وفاداری سے بالاتر ہو کر کیا جائے، وفاقی و صوبائی حکومتی ڈھانچہ معقول حد تک رکھا جائے، ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت بڑے ڈیزائن کے ساتھ اداروں کو تباہ کیا گیا.... بڑے بڑے کارٹلز کے ذریعہ معیشت کو مفلوج کیا گیا.... کارٹلز کا پھیلاﺅ ”حکومتی اشرافیہ“ کے بغیر ممکن نہ تھا.... گیس، بجلی کی پیداوار بڑھانے، مکمل ریلیف دینے کی بجائے عوام کو اشتہارات کے تحفے دئیے گئے.... دھاندلی کے الزام کو روایتی سیاسی حربہ کے طور پر لیا گیا جو کہ غیر سنجیدگی کا مظہر تھا۔ تمام اختلافات کو بھلا کر ”عمران خان“ کا حکومتی سرپرستی میں میز پر بیٹھنا، دھرنا ختم کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی.... اصولاً اس دن ”عدالتی کمیشن“ تشکیل پاجانا چاہئے تھا.... بہر حال ایک بڑے، تکلیف دہ کی باقیات مٹانے کے عزم پر ”متحدہ اکٹھ“ کی فضا مثبت اثرات کو حکومت زائل نہ ہونے دے.... جامع، پائیدار انتخابی اصلاحات کا نفاذ بھی پہلی ترجیح کے طور پر لے .... قومی ایکشن پلان کی تجاویز سے متعلق ”فوج“ کا ذہن بہت واضح یکسو ہے جبکہ سویلین قیادت کے اذہان میں کنفیوژن ہے، تذبذب کیفیت ہے، نتائج کا حصول پے درپے اجلاسوں، بلند آہنگ اعلانات سے ممکن نہیں، حکومت فوج، سیاسی پارٹیاں مشترکہ سوچ، لائحہ عمل کے ذریعے پیدا ہونے والے قومی اتفاق رائے کے ماحول کو پاکستان کی خوبصورتی کے لئے استعمال کریں، اس کی تعمیر نو آرائش و زیبائش کے لئے موجود قیادت، قومی اکابرین کی خدمات حاصل کی جائیں، کچھ عرصہ کے لئے سیاست بھول جائیں.... اپنے باغ کی اپنے نئے و پرانے باغبانوں کے ذریعہ حفاظت کا ذمہ اٹھائیں گے تو پھر کبھی غیر ممالک سے کروڑوں روپے کے مشاہرہ پر درآمدی وزرائے اعظم کی ضرورت نہیں رہے گی جیسے ”پرانا گلدستہ“ استعمال کرنے کے بعد مارکیٹ سے کھاد کی احتیاج ختم ہوگئی تھی....

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...