مکرمی! 24 دسمبر کو ایڈیٹر کی ڈاک لاہور میں محترم محسن فارانی کا میرے 20 دسمبر کو شائع شدہ کالم کے حوالے سے خط شائع ہوا جس میں مجھے متوجہ کیا گیا کہ باب المندب کے بائیں طرف والا افریقی ملک جبوتی ہے۔ واقعتاً یہ جبوتی ہی ہے جو عدن اور ’’صعدہ‘‘ کے بالمقابل ہے۔ بندرگاہ عدن سے آگے ساتھ ہی ’’صعدہ‘‘ ہے۔ بہت چھوٹی سی بندرگاہ۔ جبوتی سے آگے ایریٹیریا ہے اور یہ افریقی پٹی آگے جا کر حبشہ و سوڈان و مصر کو ملاتی ہے۔ جبوتی و عدن کے درمیان باب المندب میں اسرائیلی جنگی بیس موجود ہے۔ عملاً عدن سے سابق صدر علی عبداللہ صالح کی فوج کا قبضہ ختم ہے اور اب صدر ہادی کی حامی فوج اور قبائل کا اس پر قبضہ ہے۔ حوثی باغیوں کی طاقت حدیدہ کے اردگرد زیادہ ہے۔ اگر حدیدہ سے آگے عدن تک آجائیں تو عالمی بحری تجارت ان کے رحم و کرم پر ہو گی۔ -(2) محترم نے ہمارے عدن کے دائیں طرف سعودی عرب لکھنے کو غلط کہا کہ دائیں طرف تو یمن ہے جواباً عرض ہے کہ ہم نے کالم تصوراتی طور پر کراچی بحیرہ عرب کے سامنے کھڑے ہو کر لکھا۔ پھر ہم نے عدن و یمن کو ایک ہی تصور کیا کیونکہ عدن یمنی سمندری حدود کی بندرگاہ اور یمنی جغرافیے کی ملکیت ہے جیسے کراچی یا گوادر پاکستانی بندرگاہیں اور جغرافیے کا حصہ ہیں۔ لہٰذا ہمارا لکھنا شاید غلط نہیں ہے۔ ہاں اگر تصوراتی طور پر عدن بندرگاہ پر کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو فوراً صرف یمن ہی موجود ہے مگر ہمارا دور سے کھڑے ہو کر دیکھنا غلط ہرگز نہیں ہے۔ جیزان اور نجران وہ سعودی شہر ہیں جن کی سرحدوں پر سے پہلے القاعدہ والے سعودیہ پر حملے کرتے تھے۔ جب سے حوثی بغاوت نمایاں ہوئی القاعدہ نسبتاً خاموش ہے۔ البتہ پچھلے دنوں داعش نے القاعدہ پر حملہ کیا تاکہ وہ القاعدہ کی جگہ لے سکیں۔ حوثی راکٹ و میزائل جیزان و نجران کے قرب سے یمنی علاقوں سے فائر ہوتے ہیں۔ اسی علاقے میں میدانی طور پر سعودی حوثی باغی قبائل اور صدر علی صالح کی حامی فوج کی کشمکش جاری ہے۔ -(3) باب المندب کا سمندر بحر احمر ہے یا بحیرہ عرب؟ ہم نے مطالعہ سے ادراک کیا کہ عرب و یمن تاریخ میںعدن و صعدہ کو باب المندب کا رکن بتایا جاتا رہا ہے۔ لہٰذا عربوں کے اس نام کو ہی ہم نے صحیح سمجھا اور لکھا ورنہ بحیرہ عرب و بحرہ احمر جس سمندری تنگ آبی گذرگاہ کو بناتے ہیں اسی کا نام باب المندب کا سمندری وجود ہے۔ -(4) یہ مؤقف کہ بحیرہ احمر (جو نہر سویز کے ذریعے بحیرہ قلزم سے ملتا ہے) سے آتی بحری جہاز رانی کے ذریعے ’’جفا‘‘ اور ’’حدیدہ‘‘ میں حوثیوں کو اسلحہ ملنا آسان ہے۔ ہم اسے تسلیم کرتے ہیں مگر سعودیہ کی بحری قوت اتنی نہیں کہ وہ اس اسلحے کی سمگلنگ کو روک کر حوثیوں کو کمزور کر سکے۔ عملاً بحیرہ عرب سے بھی حوثیوں کو ایرانی مدد سے اسلحہ ملنے کے شواہد موجود ہیں اور امریکی جنگی بحری جہازوں نے کئی ایرانی جہازوں کی بار بار اسی لئے تلاشی بھی لی تھی۔ بہرحال فارانی صاحب کا شکریہ ۔ (محی الدین بن احمد دین)