چیف جسٹس آف پاکستان اور ’’بابے‘‘!!

Dec 29, 2017

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

گزشتہ ہفتے 23 دسمبر2017ء کو پروفیسر ڈاکٹر ندیم الحق جو شکاگو یونیورسٹی امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس کے سربراہ ہیں وہ پاکستان نیشنل فورم کے ایک اجلاس میں بطور مہمان خصوصی تشریف لائے تھے۔ ان کے والد جناب ایس آئی حق ایوب خان کے دور میں مغربی پاکستان کے ون یونٹ کے زمانے میں چیف سیکرٹری کے اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔ جناب پروفیسر ڈاکٹر ندیم الحق ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی حیثیت میں خدمات بجا لاتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ کسی بھی قوم کی بہبود اور ترقی کیلئے فروغ تعلیم ایک کلیدی فیکٹر ہے۔ چنانچہ اقتصادی سطح پر پاکستان کی ترقی کیلئے منصوبہ بندی کی پلاننگ کرتے وقت وہ ہر منصوبے میں ہر سطح کے لیول پر تعلیم کے فروغ کو اولین ترجیح دینا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے بہت سے پراجیکٹس کا مختلف صوبوں یعنی مشرقی و مغربی پاکستان کے مختلف علاقوں اور اسلام آباد میں اپنی مرکزی پالیسی سازی کا ذکر کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا کہ وہ اپنے منصوبوں میں کامیابی سے پیشرفت کرنے کیلئے شعبہ تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا 2 فیصد سے زیادہ سالانہ بجٹ میں تمام کوششوں کے باوجود مختص کرانے میں ناکام رہے۔ جس سے قومی مشن کا ٹارگٹ حاصل کرنے کے راستے میں دشواریوں اور مشکلات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ راستہ میں حائل دشواریوں پر قابو پانا ان اکیلے کے بس میں نہ تھا۔ قیام پاکستان سے لے کر ون یونٹ تک اور پھر ایوب دور سے لیکر آج تک جب کہ مغربی پاکستان کا ون یونٹ اب پورا پاکستان بن چکا ہے اور چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر شمالی علاقہ جات اور فاٹا کے سرحدی علاقے پھل پھول رہے ہیں آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہے لیکن شعبہ تعلیم میں ہماری پسماندگی اور درماندگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اگر ہم اردگرد کے ہمسایہ ملک پر نظر ڈالیں تو1947ء میں شعبہ تعلیم میں جو ممالک ہم سے بہت پیچھے تھے ان کی ترقی کی رفتار دیکھ کر ہمیں اپنی حالت زار پر غور کرنا چاہئے چنانچہ حالات کے جبر کے تحت ڈاکٹر ندیم الحق امریکہ چلے گئے جہاں وہ کئی سالوں سے شکاگو یونیورسٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف کرتے ہوئے پاکستان نیشنل فورم کو حیرت میں ڈال دیا کہ شکاگو یونیورسٹی میں تعلیم کا نظام اس قدر اونچا اور بلند ہے کہ 39 عدد سینئر پروفیسر صاحبان نوبل پرائز یافتہ لاریٹ ہیں جن میں امریکہ کے سابق صدر اوبامہ بھی شامل ہیں جو آج کل وہاں پڑھاتے ہیں۔ بے ساختہ میری زبان پر علامہ اقبال کا یہ شعر جاری ہو گیا۔ 

روز حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
اس موقع پر فورم کے ایک فاضل رکن نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ یہ دن بھی دیکھنا تھا جب حکومت اور معاشرہ تعلیم و تربیت کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں سے اس قدر غافل ہو چکا ہے کہ بزرگوں کی عزت و احترام کی پرواہ تک باقی نہیں رہی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنے ایک پبلک خطاب میں وضاحت کرنا پڑی کہ سینئر سٹیزن یعنی بزرگ شہری جنہیں لوگ پیار اور عزت سے عقیدت کے ساتھ ’’بابا‘‘ کہتے ہیں باپ دادا کا درجہ رکھتے ہیں ان کی معاشرہ میں موجودگی قوم کیلئے باعث خوش نصیبی ہے۔ فاضل چیف جسٹس کو قانون دانوں کے ایک اجتماع سے اس وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا بنچ اور بار کا وہ ملا جلا اجلاس لفظ ’’بابا‘‘ کے حرمت حرف سے ناآشنا تھا۔ میری عاجزانہ رائے میں حقیقت کچھ اور ہے اور اس عاجز کا خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ پردہ جو اٹھ گیا تو بات بڑھ جانے کا اندیشہ ہے۔ جس سے سوائے شرمندگی کے کچھ اور حاصل نہیں ہو گا۔ اردو اور پنجابی معاشرہ میں پیار میں گوندا ہوا یہ لفظ اپنے اندر وسیع مہکتے ہوئے معنی رکھتا ہے کہ پورا کالم بھی بیان کرتے ہوئے ناکافی ہو جائے۔ میں بچہ تھا تو پیار سے اپنے والد کو ایک عجیب کیفیت سے اس نام سے پکارتا تھا اب میرے بیٹے پوتے بھانجے بھتیجے غرض نئی نسل کے سب بچے اپنی ننھی منی سریلی آواز میں ’’بابا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ لفظ بزرگی کا ایک ہر خاندان میں ’’سنبل‘‘ بن چکا ہے۔ خاندان کے دائرہ سے نکل کر معاشرہ اور ملکی و قومی حدود تک آ جائیں تو آپ کو بابائے اردو اور بابائے قوم کے القاب ملتے ہیں اور ان کی عظمت کی یاد دہانی کی ضرورت نہیں۔ تو پھر اس میں تعجب کی کون سی نئی بات ہے کہ پاکستان عدلیہ کے سربراہ فاضل چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی قوم کو یاد دلایا کہ اعلیٰ عدلیہ کا ہر فاضل جج بھی ایک شفیق اور مہربان باپ کا جہاں ایک نرم اور رحم دل گوشہ رکھتا ہے وہاں انصاف کے تقاضے پورے کرنا اورعدلیہ کی بالادستی کو برقرار رکھنا بھی خاندان کے سربراہ ہونے کے ناطے اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اس پر پاکستان نیشنل فورم میں جس میں زندگی کے مختلف شعبوں کے نمائندے پاکستان کی قومی سلامتی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ شعبہ تعلیم کے بارے عدلیہ کے سربراہ کی فروغ تعلیم کے بارے میں ذاتی دلچسپی کو سراہا گیا۔ راقم کا تین حوالوں سے شعبہ تعلیم کے فروغ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ سب سے پہلے بحیثیت چیئرمین ابن سینا ایجوکیشن موومنٹ جہاں پرائمری سطح پر پرائیویٹ سیکٹر میں پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک بچے اور بچیوں کو فری ایجوکیشن میری زندگی کا مشن ہے۔ دوئم بحیثیت ایڈیٹر اور پبلشر ماہوار رسالہ ’’قندیل نو‘‘ گزشتہ 25 سال سے اسی مشن کی فروغ اشاعت میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ سب سے آخر اور سب سے اہم میرے لئے گورنمنٹ کالج لاہور کا اولڈ راوین ہونا میرے لئے ایک سرمایہ حیات ہے۔ میں نے 1939ء میں گورنمنٹ کالج جائن کیا تھا اور آج میں عمر کے لحاظ سے سب سے سینئر اولڈ راوین ہونے کا اعزاز رکھتا ہوں اور اس ناطے سے مجھے علم و دانش کے سرچشمہ سے فیض یاب ہونے والے اس طویل دورانیہ کے اولڈ راوین کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہتا ہے۔ تاریخ ایسے نامور اور عہد ساز اولڈ راوینز کے ناموں کی ایک کہکشاں کا درجہ رکھتی ہے۔ جن میں تازہ ترین ناموں میں چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار کا نام نامی شامل ہے جن کو میں نے مختلف تقاریب میں اپنی مختلف ملاقاتوں کے دوران ایک درددل رکھنے والا انسان ایک اعلیٰ ترین قابلیت اور منصف جج کے ساتھ ساتھ ایک شفیق اور رحمدل باپ کے جذبات رکھنے والا انسان اور چٹان کی طرح مضبوط اور پرعزم جج اپنی گفتگو کے دوران محسوس کیا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ موجودہ امتحان کے دور میں پاکستان کی عدلیہ میں قانون اور آئین کی بالادستی محفوظ ترین ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان زندہ باد

مزیدخبریں