اسلام آباد(سہیل عبدالناصر) ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس یا کسی موقع پر غیر رسمی گفتگو، پاکستانی میڈیا کیلئے ہمیشہ غیر معمولی دلچسپی اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔عموماً توقع کی جاتی ہے کہ انکی گفتگو سے سلامتی اور دفاع کے علاوہ کسی سیاسی موضوع کا پہلو بھی نکل آئیگا۔ ویسے بھی ڈی جی آئی ایس پی آر، چیف آف جنرل سٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس سمیت وہ چوتھے اعلیٰ افسر ہیں جو ہمہ وقت آرمی چیف کے ساتھ رابطہ میں ہوتے ہیں اور ان سے بڑی خبر ملنے کا امکان ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ جمعرات کے روز صحافیوں کی امید بر آئی۔ آئی ایس پی آر کا آڈیٹوریم کچھا کھچ بھرا تھا۔ ڈی جی نے تحریری بیان سے بریفنگ کا آغاز کیا۔ سوال و جواب کے دور میں موضوعات بدل گئے اور بات خواجہ سعد رفیق کے حالیہ بیان، اورسابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر کے بیانات تک جا پہنچی۔ جب خواجہ سعد رفیق کے بیان کے بارے میں سوال کیا گیا تو ، جس سرعت سے میجر جنرل آصف غفور نے قدرے طویل اور نپا تلا جواب دیا اس سے لگ رہا تھا کہ وہ اس سوال کی توقع کر رہے تھے اور جواب لے کر آئے تھے ۔ ان کے جواب کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ خواجہ سعد رفیق نے ایک سوچا سمجھا بیان دیا ہے۔خیال رہے کہ خواجہ سعد رفیق نے چند روز پہلے کہا تھا کہ آرمی چیف نے سینیٹ میں جمہوریت کی زبردست حمائت کی۔ ان کا حکم ماننے والوں کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے اور چھوٹی موٹی شرارتیں نہ کی جائیں۔ خواجہ سعد رفیق کا اشارہ نہ جانے کس طرف تھا لیکن جنہیں آرمی چیف کا حکم ماننا چاہیے ان میں پوری فوج اور اس کی کمانڈ کے علاوہ ملٹری انٹیلیجنس شامل ہے۔ آئی ایس آئی میں اگرچہ بری فوج کے افسران کی اکثریت ہوتی ہے تاہم یہ ادارہ قانون کی رو سے وزیر اعظم کے ماتحت ہے۔ جب نواز شریف اور مریم کے بیانات پر سوال کیا گیا وہ اپنے خلاف کارروائی میں اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کا تاثر دے رہے ہیں تو یہاں انہوں نے توقف سے کام لیا، کچھ سوچ کر جواب دیا کہ سیاسی معاملات پر وہ تبصرہ نہیں کریں گے تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ کہ دیا کہ اگر ان پاس ثبوت ہیں تو لے آئیں۔ مذکورہ سیاسی سوالات سے قطع نظر ڈی جی کا زور اس بات پر تھا کہ ہمیں مسلح افواج کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ دشمن پاکستان کے خلاف ’’ ففتھ جنریشن وار ‘‘لڑ رہا ہے۔ اس طرز کی لڑائی میں ایک ملک کے اپنے اثاثے اور وسائل ، خصوصاً میڈیا کو اس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے یہ کہنے پر اکتفاء کیا کہ سوشل میڈیا پر کچھ نہ کچھ چلتا رہتا ہے تو اس صورت میں کیا فوج کا مورال بلند ہو گا کم ہو گا؟ ان کا اشارہ سیاسی جماعتوں اور بعض گروپوں کی طرف سے فیس بک اور ٹوئٹر پر معاندانہ بیانات کی طرف تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آرمی چیف نے حال ہی میں ایران کا بہت مفید دورہ کیا تو کیا اب ایران کے ساحلی شہر چاہ بہار میں وہ را کا وہ اڈہ بند کر دیا گیا جسے کل بھوشن جادیو چلا رہا تھا تو اس کے جواب میں انہوں کہا کہ یہ معاملہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے۔ انہوں نے ایران کو اس قضیہ سے نکال ہی دیا جس کی بندرگاہ میں یہ اڈہ قائم تھا۔انہوں نے بتایا کہ کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے حالیہ اجلاس میں آرمی چیف نے خوشحال بلوچستان کے پروگرام کا خاکہ پیش کیا جس کا مقصد بلوچستان میں سماجی و معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہے۔ اس پروگرام کی منظوری دے دی گئی لیکن اسی نوعیت کا ایک پروگرام ،پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ’’ آغاز حقوق بلوچستان‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔ اشفاق پرویز کیانی اس وقت آرمی چیف تھے۔ پھر علم نہیں کہ اس پروگرام کا کیا حشر ہوا۔ اللہ کرے یہ منصوبہ اسی انجام سے دوچار نہ ہو۔ آصف غفور نے بتایا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب کی رفتار تیز کی جا رہی ہے تا کہ اگلے برس دسمبر تک یہ باڑ مکمل کر لی جائے۔
سعد رفیق کے بیان سے متعلق فوجی ترجمان کا قدرے طویل اور نپا تلا جواب
Dec 29, 2017