کاروباری راہیں کشادہ کریں

ملک میں معاشی سردمہری سے نکلنے‘ تعمیروترقی کی رفتار تیز کرنے‘ کاروبار چلانے اور روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ بانی پاکستان کے ارشادات کی طرف پلٹا اور ان پر عمل کیا جائے۔ برصغیر میں مسلمانوں کو انگریز کی سیاسی اور ہندو کی معاشی بالادستی سے نجات دلانے کیلئے حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے عظیم الشان تحریک برپا کی۔ کسی مرحلہ پر توتکار یا گالی گلوچ کی نوبت نہیں آئی۔ اتحاد و اتفاق کی طاقت کا اظہار اس طرح ہوا کہ ایک ہی صف میںکھڑے ہو گئے محمود وایاز۔ بڑے‘ چھوٹے‘ امیر‘غریب کی تمیز ختم کرکے تمام مسلمان قائداعظم کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ قائداعظم کے تدبر و جرأت اور مسلمانوں کی عظیم الشان قربانیوںکے سامنے انگریز کو بے بس ہوکر بوریا بستر سمیٹ کر رخصت ہونا پڑا۔ ہندو کی بالادستی کا خواب چکنا چور ہو گیا اور پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ بانی پاکستان نے سیاستدانوں کو اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کا درس دیا تاکہ اقتدار پرستی کی ہوس میں مبتلا ہوکر پوری قوم کو ٹکڑوں میںتقسیم نہ کریں بلکہ اتحاد و یکجہتی کی طاقت اور مہر و محبت کی روشنی میں پوری قوم کی رہنمائی کرتے رہیں۔ آپ نے پہلے دن دیکھ لیا تھا کہ وسائل سے محروم مملکت خداداد کیلئے وسائل فراہم کرنے میں ان کی آواز پر سب سے پہلے کاروباری طبقہ نے لبیک کہا اور وسائل قائداعظم کے قدموں میں نچھاور کردیئے تھے۔ اس لئے کاروباری طبقہ کو کام کام اور کام کا سلوگن دیا۔ انہیں معلوم تھا کہ نوزائیدہ مملکت خداداد پاکستان کی تعمیر کیلئے اگر کوئی طبقہ دلجمعی و یکسوئی کے ساتھ محنت کر سکتا ہے تو وہ کاروباری طبقہ ہے۔ اس لئے انہوں نے اس طبقہ کو محنت کی تلقین کی۔ پاکستان بنا تو اس کے پاس کارخانے تھے اور نہ فیکٹریاں یا ملیں تھیں اور نہ ہی قرض کی سہولت کیلئے بنکوںکے دروازے کھلے تھے۔ کاروباری طبقہ نے قائداعظم کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنی جمع پونجی سے صنعت لگائی اور کاروبار شروع کئے۔ دن رات محنت کی۔ تھوڑے عرصہ میں چھوٹی بڑی صنعتوںکا جال بچھایا۔ ہندو کی ریشہ دوانیوں‘ سازشوں اور اہل اقتدار کی غفلت شعاریوں سے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا دھواں اٹھنے لگا جو سازشی پھونکوں سے نفرت کا الائو بنا اور محبتوں کا خرمن جلا کر راکھ بنا دیا گیا۔ دیکھتی آنکھوں اور بہتے آنسوئوں نے ڈھاکہ ڈوبتے اور پاکستان دولخت ہوتے دیکھا۔ اسی کے آس پاس اہل اقتدار نے صنعتوں اور بڑے کاروباری اداروں کو قومیا کر محنت کے خوگر صنعتکاروں کو بے دست و پا کر دیا۔ ملکی معیشت کو لگنے والا یہ زخم اتنا بڑا تھا کہ درست کرنے میں کافی وقت لگا۔ پاکستان کی بزنس کمیونٹی کو آفرین کہ اس نے ہمت نہیں ہاری بلکہ عزم نوکے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ وسائل اکٹھے کئے اور کاروبار چلائے۔ مشکلات کے باوجود مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ اہل اقتدار نے کاروبار کیلئے ماحول سازگاردینا ہوتا ہے۔ان کی سوچ‘ فکر کاروباری سرگرمیوں پر تیزی سے اثرانداز ہوتی ہے۔ ملک سے محبت کا تقاضا یہ تھا کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے سیاستدان ملک میں معاشی انقلاب برپا کرنے کیلئے یکجہتی کا ماحول پیدا کرتے۔ لڑائی جھگڑوں اور ایک دوسرے کے خلاف زبان درازیوں سے اجتناب کرتے۔ حسن سلوک اور محنت و لگن کے جذبوںکو اجاگر کرکے خارجہ سرمایہ کاروں کو منافع بخش بہترین ماحول فراہم کرتے۔ بدقسمتی سے اہل سیاست کے دونوں بازوئوں کی طرف سے ابھی مثال قائم نہیں کی جا سکی۔ سیاست میں موجود دونوں طبقات کچھ عرصہ سے دشمنی کے انداز میں چل رہے ہیں۔ ایک وقت میں حکمران اگر اچھا کام کرے تو بعد میں آنے والے اسے خراب قرار دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ روایت کے مطابق پارلیمنٹ میں اگر کسی کمیٹی کی چیئرمین شپ حزب اختلاف کے لیڈروں کو دینے کی بات چلتی ہے تو اہل اقتدار مخالفت میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ سٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل کے موقع پر بھی اسی قسم کی صورتحال دہرانے کی مشق سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔کسی کی انا کا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ خدمت کرنا اور کاروباری راہیں کشادہ کرنا چاہتے ہیں تو سب کو مل جل کر کام کرنا اور زور لگانا چاہئے۔ پارلیمنٹ میں اگر دھینگا مشتی ہوتی رہے تو لامحالہ اس مقدس ایوان میں اڑنے والی دھول کاروباری راہوں کو بھی گردآلود کرکے اور خارجہ سرمایہ کاروں کو دوسرا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرے گی۔ اس طرح یقینی بات ہے کہ پارلیمنٹ کے صاحباں عقل و شعور کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال معاشی سرگرمیوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ انہی حالات کی اثرپذیری سے آئے روز سٹاک ایکسچینج میں اربوں کی سرمایہ کاری مٹی ہو رہی ہے۔ قائداعظم کے فرمودات کی رواں اور پاکستان سے حقیقتی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ دائیں اور بائیں کے سیاستدان توتکار کی گردان کو چھوڑیں۔ ملک میں سرمایہ کاری راغب کرنے اور کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے پر اپنی توجیحات مرتکز کریں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے شروع کردہ ڈیم پروگرام کو پروان چڑھانے میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں صرف کریں۔ معیشت کی گاڑی کو چلانے کیلئے دونوں گروہ یکساں زور لگائیں۔ اگر ایک گروہ زور لگاتا اور دوسرا رکاوٹ بنتا رہا تو ملک میں معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کاخواب اچھی تعبیر نہیں پا سکے گا۔

ای پیپر دی نیشن