پچھلے دنوں وزیراعظم جناب عمران خان نے تاجروں کے ایک وفد سے ملاقات کرتے ہوئے تفصیلی اظہارِ خیال کیا۔ وہ ساری پریشانیاں جو اس وقت تاجروں کو درپیش ہیں ان کا احاطہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم تاجروں کیلئے آسانیاں پیدا کرینگے اگر تاجروں اور صنعت کاروں کے ساتھ انصاف کیا جاتا تو آج بڑی تعداد میں تاجر بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے پر مجبور نہ ہوتے۔ یوں تو پاکستان میں چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز ہر شہر میں موجود ہیں اور ان کی ایک مرکزی تنظیم کراچی میں بھی اپنے چیئرمین کے زیرسایہ عرصہ دراز سے مصروفِ عمل ہے۔ جلاوطنی کے بعد جب بے نظیر وطن واپس پہنچیں تب ان کا لاہور میں مثالی استقبال کیا گیا تھا۔ استقبال کے بعد لاہور کے تاجروں نے بی بی کو فیصل صالح حیات کے گھر مین بلیوارڈ میں ایک استقبالیہ دیا جس میں تاجران لاہور نے مستقبل کی منصوبہ بندی کیلئے بہت ساری تجاویز بی بی کے سامنے رکھی۔ بی بی نے اپنے خطاب میں تاجرانِ لاہور کے جذبے کی تعریف فرمائی اور انکی جانب سے پیش کردہ ایک تجویز ’’چھوٹے تاجروں کو منظم کرنے کیلئے پیپلزٹریڈر سیل کے نام سے قیام کا اعلان کیا گیا۔ اس تنظیم کا کنویئنر آغا امیر حسین کو بنایا گیا۔ یہ گیارہ رکنی جنرل باڈی نامزد ہوئی اغراض و مقاصد اور تنظیم کا ڈھانچہ طے کیا گیا جو بعد میں بی بی کی منظوری کے بعد جنرل ٹکا خاں گورنر پنجاب نے ہمیں پہنچایا اور بی بی کی یہ ہدایت کہ جتنی جلد ممکن ہو پیپلز ٹریڈرز سیل کو پنجاب میں آرگنائز کر دیا جائے۔ آواری ہوٹل لاہور میں پیپلز ٹریڈرز سیل کا پہلا پری بجٹ سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت وزیر خزانہ احسان الحق پراچہ صاحب نے فرمائی تھی اس سیمینار میں لاہور کے چیمبرز آف کامرس کو بھی مدعو کیا تھا‘ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا پری بجٹ سیمینار تھا جسے بہت سراہا گیا۔ بجٹ منظور ہونے میں چند روز ہی باقی تھے کہ وزیراعظم بے نظیر نے پانچ وزرا پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جسکی صدارت فاروق لغاری صاحب کر رہے تھے۔ رمضان کے دن تھے پاکستان کے تمام چیمبرز آف کامرس اور پیپلز ٹریڈرز سیل کی شرکت سے کارروائی شروع ہوئی صبح سے شام 4 بجے تک مسلسل کارروائی جاری رہی تمام چیمبر کے ارکان نے صنعت کو درپیش مشکلات پر کھل کر بات کی۔ 4 بجے کے بعد فاروق لغاری صاحب نے پیپلز ٹریڈر سیل کے کنوینئر یعنی مجھے اظہار خیال کی دعوت دی میں نے کہا کہ اگر میں تفصیلی اظہار خیال کروں تو مجھے بھی کم از کم ایک دن چاہیے، مسائل گھمبیر ہیں اور وقت بہت کم ہے اس لیے میں اپنی گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے چند باتوں کا ذکر کروں گا میں نے کہا کہ آج کی اس میٹنگ میں جس طرح ہمارے دوستوں نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں صنعت کار بہت مظلوم ہیں اور انہیں سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ میں حیران ہوں کہ پاکستان میں صنعت کار یہ نقصان کیسے برداشت کر رہے ہیں اور یہ بات بھی میرے لئے حیرانگی کا باعث ہے کہ کمپنی نقصان میں جا رہی ہے لیکن آہستہ آہستہ ہر سال صنعتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک صنعت کار جو پہلے ایک فیکٹری کا مالک تھا اب وہ گروپ آف کمپنیز کا مالک ہے۔ اس موقع پر ایک تجویز پیش کرکے اپنی بات مختصر کروں گا میری تجویز ہے کہ پاکستان میں چیمبرز آف سمال بزنس قائم کیا جائے تاکہ چھوٹے تاجروں کے حقیقی مسائل پر حکومت کی توجہ مبذول کروائی جاسکے۔ آج کے اس اجلاس میں پاکستان چیمبرز نے اپنی ایسوسی ایٹ کلاس (سمال بزنس) کے کسی ایک مسئلے پر بات نہیں کی ہے۔ گویا سمال بزنس کا کوئی مسئلہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کا ذکر بھی کیا جاسکے، اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان چیمبر آف سمال بزنس فوری طور پر قائم کیا جائے۔ میرے اظہار خیال پر چیمبر کلاس کے دوستوں میں کھلبلی مچ گئی۔ انہوں نے کہا یہ کون ہے؟ اسے کون لایا ہے؟ وغیرہ اس پر فاروق لغاری صاحب نے انہیں چپ کروایا اور کہا صبح آپ تمام افراد ان سے گرم جوشی سے مل رہے تھے اور اب پوچھتے ہو کہ یہ کون ہے؟ مجھے دوبارہ اپنی بات جاری رکھنے کیلئے کہا میں نے کہا چیمبر آف کامرس کی طرف سے یہ بات آئی ہے کہ وہ ایسوسی ایٹ کلاس (سمال بزنس) کے نمائندے کو ساتھ لائے ہیں وہ بھی اظہارِ خیال کرنا چاہتے ہیں میں نے صدر مجلس سے گزارش کی کہ میرے بعد ان کو ضرور سنا جائے۔ چنانچہ چند اور ضروری باتیں کرنے کے بعد میں نے اپنی گزارشات ختم کر دیں اسکے بعد ایسوسی ایٹ کلاس کے نمائندے نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں آغا امیر حسین صاحب کے خیالات سے متفق ہوں اور انکے مطالبے ’’پاکستان چیمبر آف سمال بزنس‘‘ کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں اس بات پر کارروائی مکمل ہوئی اور اگلے دن وزیراعظم کے ساتھ ہماری میٹنگ تھی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی اس میں ان تمام مسئلوں کا حل پیش کیا گیا تھا اور خاص طور پر ’’پاکستان چیمبرز آف سمال بزنس‘‘ کی تجویز کا ذکر تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ چنانچہ وزیراعظم نے میری تجویز قبول کر لی اور وزیرصنعت فیصل صالح حیات کو حکم دیا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرکے چھوٹے تاجروں کا یہ چیمبر جتنی جلد ممکن ہو قائم کر دیا جائے یہ خبریں اخباروں میں بھی چھپیں لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چیمبر کلاس کے امیر کبیر صنعت کاروں نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لیتے ہوئے پاکستان چیمبرز آف سمال بزنس کی بیل منڈھے نہیں چڑھنے دی ہم نے بہت کوشش کی لیکن اثر و رسوخ اور سرمائے کا مقابلہ نہ کرسکے۔ آج سال ہا سال گزر جانے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی تاجروں سے گفتگو سن کر ہمیں یہ حوصلہ ملا ہے کہ پاکستان کے مفاد میں ایک اچھی اور بہتر تجویز پر شائد اب عمل ہو جائے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان بھر میں دیہات سے لیکر میٹرو پولیٹن شہروں تک پھیلے ہوئے سمال بزنس کو آرگنائز کرنے کا موقع ملے گا۔