پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

میں نے ان دنوں معروف رائٹرز سے انٹرویوز کے دوران ایک سوال سب سے کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کتاب کا دور ختم ہوچکا ہے اور کتب بینی آخری سانسیں پوری کر رہی ہے۔ ہم رائٹرز شاید کچھ امیدیں ابھی بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ کتاب ابھی بھی پڑھی جا رہی ہے اور فروخت ہو رہی ہے اگرچہ حقیقت بہت تلخ ہے اور نئی نسل میں اس کے متضاد رویہ فروغ پاچکا ہے کتب بینی واقعی مفقود ہوتی ہوئی روایت کی صورت اختیار کرچکی ہے اسکے باوجود ہم شاید اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کیونکہ کسی رائٹر کی طر ف سے مجھے واضح جواب نہیں مل سکا اور سب کو تقریبا ایسا لگا کہ ایسا نہیں ہے اگر ایسا نہیں ہے تو آج ہماری کتابیں فٹ پاتھوں کی زینت کیوں بن چکی ہیں اعلی ترین کتابیں نہایت معمولی قیمت پر خاک کے فرش پر غمزدہ آنکھوں سے آنے والوں کی راہ تک رہی ہیں مگر یہ ابدی ہجر کتاب اور قاری کو بدستور دور کرتا چلا جارہا ہے آج انٹرنیٹ کا دور ہے اور نئی نسل ایک کلک پر اپنا مطلوبہ مواد نیٹ پر نکال لیتی ہے لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ ادب سے ان کا کتنا رشتہ باقی بچا ہے۔ نئی نسل علامہ اقبال کے علاوہ کتنے ادبی قدیم و جدید ناموں سے آشناء ہے؟ وہ یقیناًجواب دینے سے قاصر ہوں گے۔ سائنس کا دور ہے یہ بات ہم سالوں سے سنتے آرہے ہیں لیکن سائنسی آلات ہمیں دوسرے علوم سے دور کرنے کا باعث کیسے بن سکتے ہیں اگرچہ انکی ضرورت و اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں کتاب خریدنا اور کتاب کو تحفہ میں دینا کتنا خوشگوار لگا کرتا تھا آج بھی اس زمانے کی جمع شدہ بے شمار کتب میری لائبریری میں موجود ہیں جو پیسے جمع ہوتے اس سے کوئی نئی کتاب خریدنے کی تیاری ہوتی۔ کتاب دینے کے معاملے میں بہت کنجوس تھی کیونکہ مجھے ہمیشہ یہ خطرہ لاحق رہتا کہ میری کتاب کوئی خراب نہ کردے یا گم نہ ہوجائے۔ آج کی نئی نسل کے ہاتھ میں جدید ترین لیپ ٹاپ، موبائل اور دیگر ایسی اشیاء تو نظر آئیں گی لیکن کتاب کسی کے ہاتھ میں نظر نہیں آئیگی۔ ایک وقت تھا جب لاہور کے چائے خانوں اور باغات میں ادبی محفلیں سجا کرتی تھیں۔ وہیں سے بڑے بڑے دانشور اور علماء سامنے آئے۔ علمی وادبی سنجیدہ اور فکری گفتگو ہوا کرتی تھی۔ تقریبات میں کتب کی تقریبات منعقد ہوا کرتی تھیں۔ کتب پر ایک دوسرے سے تجزیہ وتبصرہ پر اظہار خیال ہوا کرتا تھا۔ عام طبقہ بھی شوق سے رسائل اور کتب پڑھتا تھا۔ لیکن آج یہ باتیں محض فسانے بن کر رہ گئی ہیں۔ آج بھی ہمارے ہاں کتابیں معمولی نرخوں پر ہر جگہ دستیاب ہیں بس ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ تعلیم عام ہوچکی ہے لیکن دانش کم ہوگئی ہے۔ کسی بھی ملک کا بہترین اثاثہ اسکے کتب خانے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر وہاں کی عوام کی ذہنی صلاحیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں کے کتب خانے بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ہمیں نئی نسل کو اس طرف لانے کی ضرورت ہے کتب کو عملی زندگی کا جزو بنانے کیلئے کچھ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ انفرادی رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ اس کا متبادل ہرگز نہیں ہوسکتے۔ کتب کو تحائف میں دینے کی رویات پھر سے قائم کرنی چاہئے اور ایسا تمام سکولز اور اعلی یونیورسٹیز تک کیا جائے۔ لکھنے اور پڑھنے کیلئے مقابلہ جات کا اہتمام مزید بہتر کرنا چاہئے تاکہ لوگوں میں پڑھنے کی تحریک پیدا ہوسکے۔ اگر کتاب سے زیادہ نوجوان نسل نیٹ پر سہولت محسوس کرتی ہے تو اعلیٰ علمی و ادبی کتابیں نیٹ پر بھی موجود ہوں لیکن میرا اپنا نظریہ ہے کہ کتابیں چھپنی چاہئیں اور پبلشنگ کو فروغ ملنا چاہئے کہ کتابیں ہمارا اثاثہ ہیں۔ ہمارے کلچر کی شناخت ہیں اور جو مزہ کتاب پڑھنے میں ہے وہ نیٹ پر پڑھنے میں نہیں ہے۔ اردو ویب سائٹس پر فری کتابوں نے بھی کتاب کی اہمیت کو کم کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ نیٹ پر بھی کتابیں پڑھنے کیلئے ادائیگی ہو تاکہ لوگوں کو اس کی اہمیت سے آشنائی ہوسکے۔ ہمارے ملک میں کئی کئی دن منائے جانے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ مدر ڈے، فادر دے، ویلنٹائن ڈے، ٹیچرز ڈے اور نجانے کون کون سے دن منائے جارہے ہیں لیکن بک ڈے نہیں ہے۔ ویسے تو میں یہ طرح طرح کے دن منانے کے حق میں نہیں ہوں لیکن کوئی ایسا دن مخصوص کرکے نوجوانوں کی توجہ اس جانب مبذول کی جاسکتی ہے۔ آج کتنی تعداد میں لوگوں کو معلوم ہوگا کہ مرزا غالب کا جنم دن قائد ڈے اور کرسمس دے کے آس پاس ہی ہے۔ اْردو شاعری پر مرزا غالب کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج کل ہم مرزا غالب کے فن وشخصیت پر انڈیا کی بنی ہوئی ایک فلم دیکھ رہے ہیں۔ لگ بھگ تیس سال قبل بننے والی اس فلم میں بلا شبہ غالب کے فن وشخصیت کے بارے میں مکمل اور جامع معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ غالب صرف ذہین و فطین ہی نہیں میں سمجھتی ہوں نہایت دانشور اور جینئس شخصیت تھے۔ اگرچہ مرزا پر اور بھی بے شمار ڈاکومینٹریز موجود ہیں اور کتابی صورت میں بھی ان پر بے شمار تحقیقی کام موجود ہے لیکن افسوس اب دیکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔ دیوان غالب اْٹھا کر دیکھ لیجئے کیسے کیسے خوبصورت اشعار روح تک کو معطر کر دیتے ہیں۔ ہر شعر میں فکر و معنی کا جہان آباد ہے ایک ایک شعر میں کئی کئی پرتیں ہیں۔ ایک ایک خیال حیران کن حد اکثریت کی ذہنی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔ آج سے صدیوں قبل اس نابعہ روزگار کے تخیل کی پرواز ساتویں آسماں پر ہے۔اور آج کے نوجوانوں کے بارے میں کیا کہیئے کہ پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟ 26دسمبر کو خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر اور معروف شاعر منیر نیازی بھی دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

ای پیپر دی نیشن