جب ہم بیمار پڑتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس لازمی جاتے ہیں . چیک اپ کروانے کے بعد جب ڈاکٹر دوا تجویز کر دیتے ہیں .تو اگلا اہم سوال پرہیز اور کھانے پینے کے متعلق ہوتا ہے.جس میں ڈاکٹروں کی عمومی رائے ایک ہی ہوتی ہے. کہ صحت مند اور غذائیت بخش خوراک کا استعمال کیا جائے.اسکے ساتھ جو دوسری اہم ہدایت کی جاتی ہے اور جو اکثر ہمارے مشاہدے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اکثر اوقات بہت غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے مریضوں کو ڈاکٹر اچھی خوراک استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہے .جبکہ اچھے کھاتے پیتے خاندان سے تعلق رکھنے والے مریضوں کواپنی خوراک میں سے بہت سی چیزوں کو نکال دینیکا مشورہ دیتا ہے.اب اس رویہ کے پیچھے ڈاکٹر کا مقصدکوئی طبقاتی مخاصمت نہیں بلکہ پیشہ ورانہ دیانتداری ہے.غریب بندہ عدم دستیابی کی وجہ سے کم خوراک استعمال کرتا ہے.جس کی وجہ سیغذائی قلت اور دیگرمسائل سے دوچار ہوتا ہے. جبکہ وہ بندہ جو صاحب استطاعت ہوتا ہے . خوراک کے بکثرت استعمال کی وجہ سے اپنی صحت کو خطرے میں ڈال دیتاہے.خوراک کاضرورت سے زیادہ استعمال موٹاپے کو جنم دیتا ہے اور موٹاپا تمام بیماریوں کی جڑ ہے .اگر ہم مذہبی حوالے سے بھی مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے.کہ ہر مذہب کی تعلیمات میں کم کھانے پینے کی تلکین اور ہدایت کی جاتی ہے.جس کا واحد مقصد لوگوں کی صحت اور تندرستی کو یقینی بنانا ہے.اسلام کی تعلیمات بھی اپنے پیروکاروں کو یہی ہدایت کرتی ہے کہ ضرورت کیمطابق خوراک کا استعمال کیا جائے.حتیٰ کہ اسلام کا ایک اہم رکن اور عبادت روزہ ہے جوبدنی عبادت ہے. اور پورے سال میں ایک ماہ کھانے پینے اور دیگر حلال چیزوں سے باز رہنے کا نام ہے روزے کا مقصد ہی انسان کو اپنے نفس اور خواہشات پر قابو پانیکی پریکٹس کروانا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت ہیکہ وہ کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتیتھے اور اپنے امتیوں کو بھی یہی ہدایت کرتے تھے.آج دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد بھوک سے نہیں بلکہ خوراک کے زیادہ استعمال سے ہلاک ہو رہی ہے. گزشتہ تین دہائیوں میں کوئی بھی ملک موٹاپا نہیں گھٹاسکا.اگر عملی اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسلہ یونہی بڑھتا رہے گا. دنیا میں موٹاپے کا شکار ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے اور پاکستان نویں نمبر پر ہے دنیا کی معیشت کا 2 فیصد حصہ جو دو ٹریلین ڈالر بنتا ہے بسیارخوری پر استعمال کیا جاتا ہے .جو تمباکو نوشی اور جنگی مسائل کی طرح اہمیت کا حامل ہے.عالمی معیشت کے اتنے بڑے حصے کو لوگوں کی فلاح و بہبود اور دیگر ترقیاتی امور پر خرچ کیاجا سکتا ہے جو کے کے انسانی ترقی میں ایک اہم سنگ میل میل بن سکتا ہے.خوراک کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں.جن پر عالمی سطح پر ریسرچ ہوچکی ہے .بسیار خوری کے پیچھے کارفرما عوامل میں معاشی وسائل, سماجی روابط اور ذہنی و جسمانی صحت کے مسائل شامل ہیں.معاشی وسائل کا خوراک کے زیادہ استعمال کے ساتھ براہ راست تعلق ہے ہے کیونکہ خوشحال معاشروں میں دولت اور خوراک کی بہتات بسیار خوری کو جنم دیتی ہے جبکہ غریب اور ترقی پذیر معاشروں میں خوراک اور معاشی وسائل کی کمی عدم تحفظ کے جذبات کو جنم دیتی ہے جو خوراک کے غیر ضروری استعمال کا باعث بنتا ہے.جہاں موٹاپے کوصحت اور خوشحالی کی علامت تصور کیا جاتا ہے.اسی طرح سماجی روابط بھی بسیارخوری میں میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. ہیں انسان اگر خوش ہو تو وہ اس کی خوشی مناتا ہے اور اگر وہ ذہنی دباؤ کایا صدمے کاشکار ہو تو وہ بھی اسے ضرورت سے زیادہ خوراک کے استعمال کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ تنہائی میں انسان خوراک کو اپنا واحد سہارا سمجھ لیتا ہے اسی طرح کچھ ذہنی اور جسمانی عارضے ایسے ہیں جو زیادہ کھانے پینے کی وجہ بنتے ہیں.مثلا ہارمونز کا کا اتار چڑھاؤ ڈپریشن اور اینگزائٹی وغیرہ .جیسا کہ بسیار خوری کا کا سائنسی اور نفسیاتی نام Binge Eating Syndrome ہے.اس عارضے میں مبتلا شخص خوراک کا غیر ضروری استعمال کرنے سے خود کو روک نہیں پاتا.اور اس پر قابو پانے کیلئے اس کو کسی ماہر نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے.اس لیے ایسے شخص کو تضحیک کا نشانہ بنانے کے بجائے اسکے مسئلہ کا بہتر اور موثر حل ڈھونڈا جانا ضروری ہے .حکومت ایک ایسی منظم مشینری کا نام ہے جسے عوام الناس اپنی بہتری کیلئے تشکیل دیتی ہے. عوام ملکی وسائل میں سے سب سے قیمتی اثاثہ ہیں.جن کی صحت و تندرستی اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے.اب بظاہرمعمولی نظر آنیوالے اس مسلے پر اگر غور کیا جائے تو یہ ایک فرد کی ذاتی سطح پر شروع ہونے والی عادت ملکی اور عالمی سطح پردور رس نتائج مرتب کرتی ہے جس کا خمیازہ تمام نسل انسانیت بھگتی ہے. اس لئے حکومت وقت کو صحت کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنا ہوگا. اور تندرستی ہزار نعمت کو ایک قومی پالیسی کا مقام دینا ہوگا.اس مقصد کے حصول کیلئے عوام الناس کو آگاہی تعلیم و تربیت اور معاشی و غذائی تحفظ دیا جانا از حد ضروری ہے.تاکہ وہ عدم تحفظ سے باہر آکر ایک متوازن اور صحت مند زندگی گزار سکیں.صوبائی سطح پر ایک متحرک اور فعال ادارہ پنجاب فوڈ اتھارٹی ہے. جس کا قیام ہی لوگوں کی صحت اور تندرستی کو یقینی بنانے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا.یہ ادارہ صرف خوراک پر چھاپے مارنے والی ایک ٹیم کا نام نہیں.بلکہ ایک جامع اور منظم ادارہ ہے جو صاف خوراک کی ترسیل اور حصول کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی بہتر تربیت اور آگاہی فراہم کرنے کا پلیٹ فارم ہے.اس مقصد کے حصول کیلئے یہ ادارہ تعلیمی اداروں کیساتھ مل کر مفید تعلیمی سرگرمیاں منعقد کرتا ہے کانفرنس اور سیمینار کا اہتمام کرتا ہے اور خاص طور پر پنجاب فوڈ اتھارٹی کے میگزین کا اجراء اس سلسلے کی سب سے اہم اور نمایاں کڑی ہے جس میں ماہرین خوراک اور زندگی کے دیگر نمایاں شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی گرانقدر علمی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو شعور کی روشنی سے منور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.ان ساری کاوشوں کے ساتھ ساتھ ہم امید کرتے ہیں کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی عرفان نواز میمن صاحب کی قیادت میں نئی منزلوں کا تعین کرتے ہوئے موثر اور دوررس اقدامات کرے گی جس میں عوام کی صحت تندرستی اور تعلیم و تربیت کوبیک وقت پیش نظر رکھا جائے گا.