اسلام آباد(محمدصلاح الدین خان) آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کی پیروی کے لیے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کو ایک دفعہ پھر وزارت سے استعفیٰ دینا ہوگا، سپریم کورٹ رولز کے مطابق نظر ثانی کیس میں وہ وکیل پیش ہوگا جو مرکزی مقدمے میں کسی فریق کی جانب سے پیش ہوا تھا ، قانون دانوں کا کہنا ہے کہ فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست حکومت کی بڑی غلطی، فیصلہ سپریم کورٹ کے ججز کا ہے جو آئین و قانون سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ا نہوں نے ٹھوس شواہد ، قوائدو ضوابط، قانون کی باریک بینوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیا ہے انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اگر فیصلہ میں کوئی خامی رہ گئی تو وہ خود اپیکس کورٹ کی سبکی کا باعث بن جائے گی، دوسری جانب حکومت نے نظر ثانی اپیل دائر کر کے اپنے ساتھ اداروں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے، اگر سپریم کورٹ نظر ثانی درخواست مسترد کرتی ہے تو حکومت اور فوج کی سبکی ہوگی اور اگر درخواست منظور کرلیتی ہے تو عدالت کی ساکھ متاثر ہوگی، نظر ثانی درخواست کا مشورہ دینے والے حکومت اور اداروں کے نادان دوست ہیں، حکومت نے اٹارنی جنرل کے توسط سے سٹیٹمنٹ جمع کرائی ہوئی ہے۔ قانون سازی کرنے پر رضامندی کی بنیاد پر ہی نظر ثانی درخواست خارج ہوجائے گی، جبکہ آئینی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آرٹیکل 184/3کے مقدمہ کے خلاف اپیل نہیں ہوسکتی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شمیم الرحمان ملک نے کہا کہ حکومت کی جانب سے درخواست میں یہ مئوقف اختیار کرنا کہ عدالتی فیصلے سے روایت ختم ہوجائے گی ایسا ہی ہے کہ جب اسلام آیا تو لوگوں نے کہا تھا کہ ہم آباو اجداد سے بت پوجتے آرہے ہیں ہم کیسے بت پوجنا چھوڑ دیں۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے آرمی چیف کے معاملے پر قانون سازی کرنے پر رضامندی کے بعد درخواست دائر کرنا بہت بڑی غلطی ہے اگر ایسی غلطی کوئی عام آدمی کرتا تو عدالت اسے جرمانے کے ساتھ قید کی سزا بھی سناتی۔ سپریم کورٹ کے سنیئر وکیل حشمت حبیب نے کہا کہ عدالت نے آئین اور قانون میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود نظریہ ضرورت کے تحت آرمی چیف کو چھ ماہ کی توسیع کی اجازت دی تاہم وہ قانون سازی سے مشروط تھی، ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کے معاملے پر نظر ثانی درخواست کو گورنمنٹ بلنڈر کہا جا سکتا ہے۔