اسلام آباد (خصوصی نمائندہ/ نمائندہ خصوصی/ نوائے وقت رپورٹ) رہبر کمیٹی کے کنوینئراکرم خان درانی نے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے نیب ترمیمی آرڈیننس کی مخالفت کردی۔ پارلیمینٹ میں نیب ترمیمی آرڈیننس کا جائزہ لے کر لائحہ عمل اپنائیںگے۔ ہم تو نیب کو برقرار رکھنا ہی نہیں چاہتے ۔ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے،اپنے آپ اور اپنے دوستوں کو بچانے کے لئے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا گیا ہے ،جب عدلیہ کا فیصلہ آیا تو وفاقی وزراء نے عدلیہ اور فوج کو آپس میں لڑانے کی بھر پور کوشش کی ۔ حکومت اپوزیشن جماعتوں کو تنگ کررہی ہے ، ہم اداروں کی لڑائی نہیں چاہتے سب ادارے اپنے اپنے اختیار کے اندر ہوں، واجد ضیاء کی جو تقرری ہے وہ بھی اسی بنیاد پر ہے کہ آپ نے فلاں کو گرفتار کر نا ہے اور آپ نے فلاں کو گرفتار کرنا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں بجلی ہے اور نہ گیس ، جدھر بھی دیکھیں ٹھنڈ ہی ٹھنڈ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ روز حکومت کی جانب سے نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے، سلیکٹڈ وزیر اعظم اپنے لوگوں کو خوشخبری دیتے ہیں کہ نیب کے مقدمات کے لئے آج میں نے آرڈیننس جاری کروایا ہے آپ نیب سے آزاد ہوں گے ۔ نیب چیئرمین کہہ رہا کہ ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے اسی لئے حکومت آرڈیننس جاری کر رہی ہے۔ احسن اقبال کی گرفتاری اپنے ضلع میں سپورٹس کمپلیکس بنانے پر ہوئی اور الزام ہے کہ چھ ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے اور منصوبہ کی کل لاگت اڑھائی ارب ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری بھی انتہائی شرمناک ہے۔ یہ صاف بات ہے کہ یہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے ۔ آج بی آر ٹی پشاور کا مسئلہ پورے ملک کے بچے، بچے، میڈیا اور ہر سیاستدان کی زبان پرہے، اس منصوبہ میں کرپشن چھپناے کے لئے پی ٹی آئی سپریم کورٹ جا رہی ہے اور نیب چیئرمین کہتے ہیں کہ مجھے اس لئے روکا گیا ہے کہ اس میں حکم امتناع ہے۔ سپریم کورٹ سے استدعا کرتے ہیں کہ پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے نیب کو بی آر ٹی منصوبہ کی جو تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا اس حوالہ سے جاری حکم امتناع ختم کیا جائے ۔ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا مالم جبہ میں بھی سٹے ہے اور بلین ٹری سونامی پر بھی سٹے ہے؟ اگر بی آر ٹی پر سٹے ہے تو ہم چاہتے ہیں کی بلین ٹری سونامی منصوبہ اور مالم جبہ پر فوری کارروائی ہو۔ موجودہ حکومت مختلف ذرائع سے اپوزیشن جماعتوں کو تنگ کررہی ہے۔ حکومت کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان سب جماعتوں نے سب کچھ دیکھا ہے، پرانی جماعتیں ہیں اور آپ کی جماعت نئی ہے اور آپ نئے ہیں صرف اتنا کرو کہ جو کل آپ بھی برداشت کر لیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اکرم خان درانی نے مذید کہا کہ زبان پر تالہ بندی ہے ، میڈیا کے اظہار پر بھی تالہ بند ی ہے ۔ میڈیا میںجو حکومت کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں ان کو بھی مختلف طریقو ں سے مشکلات کا سامنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے جو رہنما بھی میڈیا پر آزادی سے بات کرتے ہیں ان کے خلاف نیب اور ایف آئی اے متحرک ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں رہبر کمیٹی کے رکن احسن اقبال کی گرفتاری بھی اسی بنیاد پر ہے کہ وہ میڈیا پر آکر حکومت کے خلاف کھلا اظہار کر رہے تھے ۔ آج کل گرفتاریاں بھی عجیب سی ہیں۔ وہ پورے ملک کے وزیر ترقی ومنصوبہ بندی تھے اس نے پورے ملک کے لئے بڑے منصوبے بنائے ہیں اور سی پیک منصوبہ بھی اسی کا مرہون منت ہے ۔ شاہد خاقان کو جیل میں پھانسی گھاٹ والی جگہ پر رکھا گیا ہے اس قسم کا دبائو کا سامنا کرنے پر ہم ان کے حوصلے اور ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں ، نہ اس نے درخواست دی کہ مجھے اس پھانسی گھاٹ سے نکالیں اور آج بھی اپنے وکلاء کو درخواست ضمانت دینے سے روکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری جو کہ آزادی کی بات کرتا ہے ، میڈیا کی آزادی کی بات کرتا ہے اور حکومت کے خلاف اور مہنگائی اور لوگوں کے خلاف ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے اس کو بھی نوٹس آیا ہے۔ اگر ہم کہتے ہیں یہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے تو اس پر غصہ میں بھی آجا تے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی کمیٹی نے نیب کے حوالہ سے بل متفقہ طور پر پاس کیا تھا کہ لیکن ساڑھے تین ماہ سے سینیٹ کا اجلاس نہیں بلا رہے۔ ان کا کہنا تھا ابھی عدالت کا ایک فیصلہ آیا ہے اور عدالت نے قرار دیا ہے کہ رانا ثناء اللہ خان کی گرفتار ی سے سیاسی بنیادوں کی بو آرہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری اور پورے پاکستان کی نظروں میں نیب ایک بہت زیادہ متنازعہ ادارہ ہے ۔ ابھی ایف آئی اے کو بھی استعمال کر رہے ہیں(ن) لیگ کے دفتر پر چھاپے مارے جارہے ہیں اور (ن)لیگی رہنمائوں پرویز رشید، عظمیٰ بخاری ، عطاء تارڑ اور دیگر لوگوں کو نوٹس دیئے جارہے ہیں۔ رہبر کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن)کے نائب صدر اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی، پی پی خیبر پختونخوا کے صدر ہمایوں خان، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان خان کاکڑ، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا شفیق پسروری، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین ، قومی وطن پارٹی کے رہنما ہاشم بابر اور دیگر رہنمائوں نے شرکت کی۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان نے مریم اورنگزیب نے نیب آرڈریننس کو دوستوں کو این آر او دینے کی سازش قرا ر دیتے کہا کہ عمران خان صاحب حکومت کے ہر منصوبے کی انکوائری روکنے کیلئے نیب آرڈیننس لایا گیا۔ سلیکٹڈ حکومت کا نیب آرڈیننس اپنی کرپٹ حکومت اور دوستوں کو این آر او دینے کی سازش ہے نواز شریف نے جھوٹے الزامات کے باوجود اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا۔ عمران صاحب اگر چوری نہیں کی تو کرپشن میںڈوبے منصوبوں کیلئے نیب آرڈیننس کیوں لائے؟ پشاور میٹرو ،مالم جبہ ہیلی کاپٹر مقدمات کی انکوائری روکنے کیلئے آرڈیننس لائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو بائی پاس کرکے نیب آرڈیننس لایا گیا نیب ریفارم پرسینٹ کی ایک خصوصی کمیٹی بنی ہوئی ہے۔ آرڈیننس مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے عجلت میں لایا گیا ہے۔ نیب قوانین میں اب بھی نوے روزکا ریمانڈ، ضمانت کی سہولت موجود نہیں، نیب پر پارلیمانی کمیٹی میں مسودہ نہ لانا حکومت کی بدنیتی جھوٹ کا واضح ثبوت ہے۔ عمران صاحب بد نیتی، دھوکہ دہی پر مبنی عارضی قانون سے کاروباری برادری کا اعتماد بحال نہیں ہوگا، نیب ترمیمی آرڈیننس حکومت یاروں کو بچانے کا این آر او و پلس ہے ، ترمیم علیمہ باجی، فیصل واوڈا اور جہانگیر ترین کیلئے این آر او پلس ہے۔ ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق ٹرائل کے دوران جیل بھگتنے والے لوگوں پر نہیں ہو رہا۔ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمشن پر دباؤڈالنے کی کوشش ہے۔ این آر او پلس چوری چھپانے کیلئے نیب کے گٹھ جھوڑ سے لایا جا رہا ہے۔ سندھ کے صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے نیب قوانین میں ترمیم کیلئے آرڈیننس لانے کا مقصد اپنے چند دوستوں کو بچانا ہے،نیب ایک کالا قانون ہے،اس وجہ سے لوگوں نے جیلیں کاٹیں اور خودکشیاں کیں،حکومت نے اپنے لوگوں کو شامل کرنے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے8لاکھ20ہزار لوگوں کونکال دیا ہے،یہ پیپلز پارٹی کے لوگ نہیں تھے،ہم ا س کے خلاف آواز بلند کرینگے جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے،یہ وفاق کامحکمہ ہے،حکومت اس کی ذمہ داری دوسرے صوبے پر ڈال پر اپنی نااہلی اور نالائقی نہیں چھپا سکتی۔ پریس کانفرنس میں سعید غنی نے کہا کہ گذشتہ روز بینظیر بھٹو شہید کی 12ویں برسی کے موقع پر لیاقت باغ میں منعقدہ جلسے میں ملک بھر سے عوام اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کرکے بلاول بھٹو زرداری سے تجدید عہد وفاکیا۔ لیاقت باغ کا جلسہ راولپنڈی کے بڑے جلسوں میں سے ایک جلسہ تھا،سعید غنی نے کہا کہ خورشید شاہ کے کیس میں نیب نے کہا تھا کہ ان کے اثاثے 500 ارب اور100 اکاونٹس پر مشتمل ہیں،تین چار ماہ بعد جب خورشید شاہ کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تو اس میں ان کے اثاثے ایک ارب سے زائد اور پانچ اکائونٹس پر مشتمل تھے۔آصف علی زرداری،فریال تالپور اور آغا سراج درانی کے ضمانت کے فیصلوں میں نیب کی طرف سے سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ریلیف فراہم کیا گیا۔ نیب کے قانون میں ترمیم سے سرکاری افسروں،بزنس مینوں،علیمہ باجی جیسے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا، پی پی رہنما سعید غنی نے تنقید کرتے کہا کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم عمران خان اوردوستوںکو بچانے کیلئے ہے۔ نیب کے ان قوانین کو تبدیل کیا جاتا جس سے عوام کو تکالیف ہیں وہ نہیں کئے گئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ صدارتی محل کے چور دروازے سے آرڈیننس لاکر وزیراعظم اپنے دوستوں کو نیب سے استثنیٰ دلوا رہے ہیں،ہم اس کے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج کریں گے،اگر یہ آرڈیننس ضروری تھا تو چور دروازے سے کیوں لایا گیا،نیب کیلئے ایسا قانون بنایا جائے،جس میں تمام جماعتوں کی مشاورت شامل ہو،ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم ان دوستوں کے نام بھی بتائیں جن کیلئے نیب آرڈیننس لایا گیا،یہ پانامہ لیکس سے بدترین سکینڈل ہے،بی آئی ایس پی سے 8لاکھ20ہزار لوگوں کو نکال کر اپنے لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،احتساب میں پہلے افواج اور عدلیہ کو شامل نہیں کیا گیا تھا،اب سرکاری ملازمین اور بزنس مینوں کو بھی استثنیٰ دے دیا گیا ہے،صرف سیاستدانوں کا احتساب ہوگا،سیاسی یتیم عقل کے اندھے نہیں بلکہ آنکھوں کے بھی اندھے ہیں جنہیں لیاقت باغ کا تاریخی جلسہ نظر نہیں آتا،وزیراعظم کراچی صوبائی حکومت کو کمزور کرنے اور اپنے اتحادیوں کو راضی کرنے کیلئے جاتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر نفیسہ شاہ،سینیٹر روبینہ خالد،عاجز دھامڑا،نوابزادہ افتخار اور نذیر ڈھوکی نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ بلکہ آنکھوں سے بھی آندھے ہیں جنہیں لیاقت باغ کا جلسہ نظر نہیں آتا پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی سیاست کا معیار کچھ اور ہے۔ ترجمان اے این پی زاہد خان نے نیب ترمیمی آرڈیننس کو مسترد کرتے ہے کہ وزیراعظم اداروں جمہوریت اور آئین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں آئین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں آئین سے متصادم قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ وزیراعظم نے نیب آرڈیننس میں اپنے لوگوں کو بچانے کیلئے ترمیم کی پارلیمنٹ کی موجودگی میں آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی تضحیک ہے۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ کو بے توقیر اور غیر فعال کر دیا ہے۔ حکومت اگر نیب قانون میں ترمیم چاہتی ہے تو اسے پارلیمنٹ کے ذریعے کرے۔ حکومت ایسا نیب قانون لائے جو شفاف اور سب کیلئے برابر ہو عمران خان کی کوشش رہتی ہے کہ اداروں میں ٹکراؤ ہو۔
لاہور(وقائع نگار خصوصی+ نیوز رپورٹر+ ایجنسیاں) تاجروں اور سرکاری ملازموں کونیب کے دائرہ اختیار سے نکالنے پرنیب ترمیمی آرڈیننس کولاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔ یہ درخواست اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ تاجروں اور سرکاری ملازموں کونیب کے دائرہ اختیار سے باہر نکالنا آئین کے آرٹیکل پچیس کی خلاف ورزی ہے۔آئین کے تحت تمام شہری برابر ہیں کسی ایک طبقے کودوسرے پرترجیح نہیں دی جاسکتی،درخواست میں کہا گیا ہے کہ ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے نیب کے اختیارات کو سلب کرکے غیرموثر ادارہ بنادیاگیا۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کرپشن کے فروغ کاباعث بنے گا۔ ترمیمی آرڈیننس سے احتساب کے جاری عمل کوشدید دھچکا لگے گا۔ نیب آرڈیننس میں ترامیم، آئین پاکستان، ملکی قوانین اور ملکی مفادات کے خلاف ہے۔ ان ترامیم نے ایماندار تاجروں اور سرکاری ملازموں کو بددیانت تاجروں اورسرکاری ملازموں کے برابر لاکھڑا کیا ہے۔ جو اخلاقی اصولوں کی بھی نفی ہے۔ فاضل عدالت سے استدعا ہے کہ عدالت نیب ترمیمی آرڈیننس کوکالعدم قرار دے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن سمیع اللہ خان نے نیب ترمیمی آرڈیننس کو مسترد کرنے کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرادی۔ پنجاب اسمبلی کا یہ مقدس ایوان نیب ترمیم آرڈیننس کو مسترد کرتا ہے۔ نیب ترمیمی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 25 کے خلاف ہے۔ ترمیمی آرڈیننس وزراء اور سرکاری افسران کی کرپشن کو تحفظ دینے کی کوشش ہے۔ حکومت نے وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری بنادیا ہے جبکہ پارلیمنٹ کو تالے لگادیے گئے ہیں۔ ملک میں اگر اس وقت نام نہاد جمہوریت قائم ہے لیکن پھر جمہوریت میں پارلیمنٹ ہی قوانین پاس کرتی ہے۔ موجودہ حکومت نے پارلیمنٹ کو بے توقیر کردیا ہے۔ نیب ترمیمی آرڈیننس حکومت میں شامل نیب زدہ افراد کو شیلٹر فراہم کرنے کیلئے لایا گیا ہے۔ لہذا یہ ایوان سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کو فوری معطل کرنے کا حکم دیا جائے۔ حکومت کو ہدایات کی جائیں کہ ایسے قوانین پارلیمنٹ سے منظور کرے۔ آن لائن ‘آئی این پی کے مطابق نیب ترمیمی آرڈیننس 2019ء کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نیب ترمیمی آرڈیننس کے خلاف شہری محمود اختر نقوی نے درخواست دائر کر دی ہے جس میں وفاقی حکومت اور سیکرٹری وزارت قانون و انصاف کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں سیکرٹری وزرات کیبنٹ‘ سیکرٹری وزارت داخلہ‘ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ‘ چیئرمین نیب‘ ڈائریکٹر جنرل ہیڈکوارٹرز نیب اور دیگر کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے تحت تمام شہری یکساں ہیں۔ ترمیمی آرڈیننس غیرآئینی ہے اور یہ بنیادی حقوق کے منافی ہے۔ مذکورہ آرڈیننس کی کابینہ سے منظوری بھی غیراصولی اور مشکوک ہے۔ درخواست کے مطابق ترمیمی آرڈیننس نے نیب کو سکروٹنی کمیٹی کے ماتحت کر دیا ہے۔ اس سے نیب کی افادیت اور اہمیت مکمل طورپر ختم ہو جائے گی۔ من پسند لوگوں کو مقدمات سے بچانے کیلئے من گھڑت کہانی گھڑی گئی۔ آرڈیننس یکساں احتساب متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 25 کے خلاف ہے۔ ترمیمی آرڈیننس وزراء اور سرکاری افسران کی کرپشن کو تحفظ دینے کی کوشش ہے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ترمیمی آرڈیننس 2019ء کو فوری معطل کرنے کا حکم دیا جائے۔