وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت دوسوچوں میں تقسیم نظر آرہا ہے، پورے بھارت میں ایک احتجاج کی کیفیت ہے ، کوئی ریاست اور شہر ایسا نہیں جس میں احتجاجی ریلیاں نہ نکلی ہوں۔ان خیالات کا اظہار شاہ محمود قریشی نے ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ا نہوں نے کہا کہ کہ پورے بھارت میں ایک احتجاج کی کیفیت ہے ، کوئی ریاست اور شہر ایسا نہیں جس میں احتجاجی ریلیاں نہ نکلی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو صورتحال تھی اور جو ظلم اور بربریت وہاں طاری ہے اس کو کمیونیکیشن بلیک آئوٹ کے زریعہ انہوں نے دبا لیا تھا ، میڈیا کی رسائی وہاں تک نہیں تھی ، کیمرے کی آنکھ وہاں نہیں پہنچ پائی، جو ظلم اور بربریت وہاں پر ہوئی وہ لوگوں کی ٹیلی وژن سکرینوں پر اس طرح نمایاں نہیں ہو سکی۔ وزیر خارجہ نے سوال کیا کہ کیا پورے بھارت کرفیو لگایا جاسکتا ہے اور کیا پورے بھارت میں کمیونیکیشن بلیک آئوٹ کیا جاسکتا ہے یہ ممکن نہیں ہے اور اس کی وجہ سے نریندر مودی سرکارکی قلعی کھل گئی اور اس کی ہندوتوا سوچ بے نقاب ہو گئی اور آج بھارت میں مسلمانوں سے ساتھ ساتھ پارسی ، سکھ، عیسائی ، دلت اور بہت سی کمیونیٹیز مل کر احتجاج کر رہی ہیں۔ پانچ اگست کو انہوں نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی اور پھر ساری آواز کو دبانے کی کوشش کی، بابری مسجد کے حوالہ سے بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اور پھر سیٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ 2019جو کہ اب قا نون کی شکل اختیار کر گیا اور پانچ ریاستوں کے وزاء اعلیٰ نے اعلان کیا ہے گو یہ قانو ن بن چکا ہے لیکن ہم اپنی ریاست میں اس پر عملدرآمد نہیں ہونے دیں گے ۔ آسام، ویسٹ بنگال، مدھیہ پردیش میں کئی علاقوں میں وزراء اعلیٰ نے ریلیوں کی قیادت کی ہے۔ ا نہوں نے کہا کہ علی گڑھ یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھارت دو سوچوں میں باالکل تقسیم دکھائی دے رہا ہے ،ایک سوچ سیکولر بھارت کا پرچار کر رہی ہے اور دوسری سوچ ہندوتوا کے فلسفہ کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ بات جو بھارت میں چلی ہے یہ تھمتی دکھائی نہیں دیتی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس شہریت ایکٹ کی صورت میں لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا ہے اور لوگ باہر آئے ہیں اور 25 سے زائد اموات ہو چکی ہیں اور ہزاروں افراد پر مقدمے قائم ہو چکے ہیں ، سینکڑوں کی گرفتاریاں ہو چکی ہیں اور سب سے بڑھ کر جو ان کا بین الاقوامی سطح پر ان کا امیج متاثر ہوا ہے اس کا جواب نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے اس مسئلہ پر پوری شدومد سے آواز اٹھائی ہے اور ابھی سعودی وزیر خارجہ تشریف لائے تھے ، میں نے ان سے بھی ذکر کیا کہ او آئی سی کے فورم سے بھی بھارتی شہریت کے خلاف بڑی مئوثر آواز اٹھنی چاہئے اور مقبوضہ کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے اور انسانی حقوق کو جو پامال کیا جارہا ہے اس پر آواز اٹھنی چاہئے اور انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ مئوثر آواز اٹھے گی، اس سے ہم غافل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کا جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ بھارت کی توقع کے برعکس ہے، اس وقت کوئی قابل ذکر کشمیری لیڈر نہیں جو بھارت کے مئوقف کا ساتھ دے رہا ہو یا ان کی حمایت کر رہا ہو، جو ماضی میں ان سے تعاون کیا کرتے تھے آج وہ بھی ان سے کنارہ کش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے کوششیں کی ہیں کہ پاکستان بیٹھ کر کوئی گفتگو کے سلسلہ میں اپنا ذہن دے لیکن پاکستان اس وقت کہہ رہا ہے کہ ان حالات میں ان اقدامات میں جو آپ نے اٹھائے ہیں پاکستان اس وقت آپ کے ساتھ بیٹھنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ۔ پانچ ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور مسجدوں کو تالے لگادیئے ہیں اور لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے تو آپ سے کیا بات کریں ۔ ZS
بھارت دوسوچوں میں تقسیم نظر آرہا ہے:شاہ محمود قریشی
Dec 29, 2019 | 14:44