آصف علی زرداری، مشاہد حسین سید، میئر اسلام آباد اور کراچی کی مردم شماری!!!!!!!

سابق صدر آصف علی زرداری بارے ایک منفی تاثر قائم ہے اس منفی تاثر کی وجہ سے ان کی تمام سیاسی خوبیاں اور صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔ یعنی یہ منفی تاثر ان کی سیاسی فہم و فراست کو ہر وقت متاثر کرتا رہتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے اگر ان کی سیاست پر ایک منفی تاثر حاوی نہ ہوتا تو ان کا سیاسی قد کاٹھ، سیاسی حیثیت، ملکی سیاست میں ان کا کردار مکمل طور پر مختلف ہوتا، عین ممکن تھا وہ اس ملک کے سب سے بااثر اور طاقتور سیاست دان بھی ہوتے۔ اس منفی تاثر اور ان کی سیاست کے منفی پہلوؤں کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اس وقت ملکی سیاست میں سب سے زیادہ سمجھدار، زیرک، عقلمند اور دور اندیش سیاست دان ہیں۔ وہ اپنے کارڈز بہتر انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔ اگر آصف علی زرداری کی سیاست کے منفی پہلوؤں کو یاد رکھا جاتا ہے تو پھر ان کی سیاسی خدمات کو بھی ضرور یاد رکھا جانا چاہیے۔ میڈیا میں ان کی سیاسی خدمات کا اس انداز میں ذکر نہیں کیا جاتا جس کے وہ حقدار ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کی طرف سے "پاکستان کھپے" کا نعرہ ایک قومی خدمت کے طور پر ید رکھا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا پھر جب وہ صدر پاکستان بنے اس دوران بھی انہوں نے ایک حقیقی سیاسی کارکن اور ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر وقت گذارا، ان کے سیاسی فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ کبھی ریاست مخالف پراپیگنڈہ کا حصہ نہیں بنے، نہ وہ ملکی اداروں کے ساتھ غیر ضروری مزاحمت یا جنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں نہ ہی اداروں کے خلاف بیان بازی کر کے بین الاقوامی سطح پر ملکی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان دنوں بھی وہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا حصہ ہیں اس پلیٹ فارم سے بھی ریاست کے اداروں کے خلاف بیان بازی میں شدت آتی جا رہی ہے لیکن آصف علی زرداری نہایت محتاط رویہ اور گفتگو کرتے ہوئے سیاسی سفر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ گوکہ اپوزیشن میں وہ میاں نواز شریف کی جماعت کے ساتھی ہیں لیکن وہ کبھی نواز شریف کے فوج مخالف بیانیے کی حمایت نہیں کریں گے نہ ہی کبھی وہ میاں نواز شریف ذاتی خواہشات کی لڑائی کا حصہ بنیں گے۔ یہ ان کی سیاسی سمجھ بوجھ ہے کہ وہ بیک وقت عوام سے بھی مخاطب ہیں اور معتدل سیاسی مزاج کے ساتھ آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ پی ڈی ایم کا حصہ رہتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی ضمنی انتخابات میں حصہ بھی لے گی اور سینیٹ انتخابات کا حصہ بھی ہو گی۔ اس سیاسی مشق کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سیاسی جنگ کا حصہ بھی رہے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن سمیت پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اس حوالے خاموشی اختیار کریں گی کیونکہ پیپلز پارٹی اس حوالے سے سب کو اعتماد میں لے چکی ہے۔ جب پیپلز پارٹی ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشنز کا حصہ ہو گی اس کے بعد پاکستان ڈیمو کریٹک کو اپنا مستقبل ضرور دیکھنا چاہیے۔ آصف علی زرداری نے محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر حکومت و اپوزیشن کو بیک وقت نہایت اچھا اور واضح پیغام دیا ہے انہوں نے حکومت سے کہا ہے کہ کچھ ہم سے سیکھ لیں حکومت کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے کیونکہ جمہوریت اسی کا نام ہے کہ آپ سب سے بات چیت کرتے رہیں۔ سب کو ساتھ ملائیں، اسی طرح زرداری صاحب نے اپوزیشن سے بھی کہا ہے کہ اپنا طریقہ کار بدلنا چاہیے۔ ان کا یہ پیغام اہل عقل کے لیے کافی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آصف علی زرداری کے سیاسی تجربے سے استفادہ کرتے ہیں یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ زرداری صاحب کی سیاسی سمجھ بوجھ سب سیاست دانوں سے بہتر ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری میڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ پاک چین دوستی اور اسٹریٹجک پارٹنر شپ کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ یہ منصوبہ اکیسویں صدی کے بڑے ترقیاتی و سفارتی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ ہے۔ اس فورم کے ذریعے سی پیک کے خلاف پراپیگنڈا کا توڑ کر کے حقائق اور منصوبوں کو میڈیا کے سامنے لانا ہے۔ کرونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کے باوجود سی پیک منصوبوں پر تیزی سے جاری پیش رفت قابل تعریف ہے۔ اس مشکل وقت میں بھی دوران ایک پاکستانی مزدور بھی کام سے نہیں ہٹایا گیا۔
مشاہد حسین سید بھی کئی خوبیوں کے حامل ہیں۔ وہ تجربہ کار بھی ہیں اور سمجھدار بھی ہیں، وہ سیاسی فیصلوں میں غلطی کم ہی کرتے ہیں۔ وہ عوام کی نبض کو بہت بہتر انداز میں دیکھتے ہیں۔ قومی و بین الاقوامی حالات ہر ناصرف ان کی گہری نگاہ ہوتی ہے بلکہ وہ اس کے ساتھ کھلی سوچ اور مخالفین کے اچھے فیصلوں کی تعریف کرنے اور صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں بھی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ وہ ہر وقت تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول رہتے ہیں۔ وہ تعمیری سوچ کے حامل ہیں یہی وجہ ہے کہ سی پیک پر ان کی رائے اور اس منصوبے پر ان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شاہ جی گفتگو اور دلائل کے ماہر ہیں، سیاسی گفتگو اور سیاسی لوگوں کو اکٹھے کرنے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں۔ وہ کسی سے الگ ہو جائیں یا کسی کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کریں جہاں سے آتے ہیں وہاں بھی تعلقات خراب نہیں کرتے بلکہ تعلقات کو نبھاتے ہیں یہ ان کی شخصیت کا سب سے اچھا پہلو ہے۔
میئر اسلام آباد کے انتخابات میں نون لیگ نے میدان مار لیا ہے۔ یہ کامیابی حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اسے خطرے کی گھنٹی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ غیر سرکاری و غیرحتمی نتیجے کے مطابق مسلم لیگ ن کے  امیدوار پیر عادل شاہ تینتالیس ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار ملک ساجد محمود نے چھبیس ووٹ حاصل کر سکے۔ پی ٹی آئی کے حوالے سے چند روز قبل ہم نے انہی صفحات پر ایسے ممکنہ خطرات سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا تھا یہ نتیجہ ثابت کرتا ہے کہ انتخاب کسی بھی سطح کا ہو اگر اچھا امیدوار میدان میں نہیں اتاریں گے تو کامیابی ممکن نہیں ہے۔ اگر صرف ووٹ کے وقت لوگوں کو یاد کریں گے تو بھی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ اگر صرف لوگوں کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ حکومت کو سمجھ جانا چاہیے کہ ان کے اپنے لوگ بھی ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ اسلام ا?باد کے میئر شیخ انصر عزیز نے رواں برس اکتوبر میں اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوئے تھے۔
ڈاکٹر فردوس شمیم نقوی کہتے ہیں کہ "دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات دو ہزار سترہ کی مردم شماری کے مطابق ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت اس حوالے مزید مسائل پیدا کررہی ہے۔ اگر مردم شماری میں مسئلہ ہے تو پھر کیا یہ اسمبلی درست ہے۔ ان حالات میں مردم شماری کرانا اب ضروری ہو گیا ہے۔" جمہوری حکومتوں کی ذمہ داری اسٹیک ہولڈرز کو مطمئن کرنا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔ اگر سیاسی سطح پر اس حوالے سے تحفظات و خدشات پائے جاتے ہیں تو ان خدشات کو دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کیا پی ٹی آئی اس میں سنجیدہ ہے؟؟
وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اداروں کو بدنام کرنے والوں کا پیچھا کریں گے۔ وزیراعظم نے پارٹی رہنماؤں اور ترجمانوں کے اجلاس میں اداروں کے خلاف مہم چلانے والوں کا کھوج لگانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ملک میں مختلف سیاسی جماعتوں کے گروہ منظم انداز میں فوج کے خلاف کام کر رہے ہیں اس منفی مہم کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے لیکن حکومت کو یہ بھی ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس کی اپنی کارکردگی کیا ہے۔ اگر حکومت عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے میں ناکام رہے گی تو لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع ملے گا شرپسند عناصر متحرک ہوں گے اور وہ مجبور اور ذہنی طور پر کمزور لوگوں پر حملہ کر نفرت پھیلائیں گے۔ یہ کام کرنے والوں پر نگاہ ضرقر رکھیں لیکن حکومت اپنی کارکردگی کو بھی بہتر بنائے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...