گزشتہ دنوںوزیر اعظم عمران خان نے کابینہ میںاپنی تقریر میں کہا تھا کہ جب وہ حکومت میں آئے تو انھیں معاملات اور چیزوں کو سمجھنے کا مناسب وقت نہیں ملا۔ عمران خان نے امریکہ کے نو منتخب صدر جوبائیڈن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں سوچ رہا تھا کہ جب جوبائیڈن اپنا آفس سنبھالیں گے تو ان کی کتنی تیاری ہو گی اور اس کے مقابلے میں میری کتنی تیاری تھی جب میں نے آفس سنبھالا۔عمران خان کے مطابق ’جب میں نے حکومت سنبھالی تو 20 دن کا وقت بھی نہیں ملا اور ان دنوں میں بھی ہم اپنی حکومت بنانے کے لیے نمبر پورے کر رہے تھے۔حزب اختلاف اور دیگر کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم نے دراصل اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی ہار تسلیم کی ہے۔وزیراعظم کے اس بیان پر مباحثے جاری مذاکرے ہوئے ہیں۔ ٹاک شوز میں کہیں پذیرائی ہوئی کہیں پوسٹ مارٹم کیاگیا۔ آئیڈیلی تو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اقتدار میں آنے والے لوگوں کو ایک ایک وزارت اور محکمے کی بریفنگ دی جانی چاہیے اور امریکہ کی طرح وقت بھی دینا چاہیے۔ امریکہ میں نومبر کے پہلے ہفتے انتخابات ہو جاتے ہیں جبکہ جیتنے والی پارٹی کو اقتدار تین ماہ بعد 20جنوری کو منتقل کیا جاتا ہے۔ اس دوران صدر اور اسکے نامزد ارکانِ کابینہ کو متعلقہ محکمے مکمل بریفنگ دیتے ہیں۔ امریکہ میں یہ سسٹم اس لیے بھی کامیابی سے چل رہا ہے کہ وہاں لٹریسی ریٹ سو فیصد ہے ۔ ہمارے ہاں تیس فیصد اور ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو دستخط کر سکتے ہیں اگر میٹرک کو معیار بنایا جائے تو شرح خواندگی پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر ووٹ کی بات کی جائے پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے شخص حتیٰ کہ ایٹمی سائنس دان کا ووٹ بھی اس شخص کے برابر ہے جس کو اپنے حدوداربعہ کا بھی پوری طرح علم نہیں ہوتا۔ ووٹر کو چھوڑیں ایک طرف، ووٹرز کے منتخب ارکانِ اسمبلی کی تعلیم کا بھی کوئی معیار نہیں ہے۔امریکہ کے بانیان نے نہایت ہوشمندی سے آئین تشکیل دیا۔ انتخابات اور منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی کے درمیان دو اڑھائی ماہ کا وقفہ رکھا۔ اسکی بہترین افادیت آج ثابت ہو رہی ہے۔ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کا شوروغوغا کرکے نتاج تسلیم کرنے اور اقتدار سے الگ ہونے سے انکار کر دیا۔ انتخابات کے فوری بعد اقتدار کی منتقلی کا قانون ہوتا تو امریکہ میں کتنا فساد ہوتا۔ درمیان میں ایک موزوں اور مناسب وقت تھا۔ ٹرمپ کے ابال میں کمی آ گئی اس نے جوبائیڈن انتظامیہ کو ملکی امور کے حوالے سے بریفنگ دینے سے انکارکے فیصلے پر نظر ثانی کر لی۔ہمارے ہاں امریکہ کی طرح ہو جائے تو اچھا ہے مگر ایسا ہونا مشکل ہے۔ ہمارے ہاں تو انتخابات سے قبل ہی دھاندلی کا واویلا شروع ہو جاتا ہے۔ حکومت میں آنے والوں کو تیاری کا موقع نہیں ملتا جیسا امریکہ میں مل جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کمی کو اس طرح دور کیا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن شیڈو کیبنٹ بنائے جیسا کہ جمہوری ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کیبنٹ کا نگران جو وزارت اس کو تفویض کی گئی ہے اس کی کارکردگی اور امور معاملات پر نظر رکھے۔ حکومت میں آنے کے بعد شیڈو کیبنٹ کے ذمہ دار کو وہی وزارت دے دی جائے تو اسکی کارکردگی بہتر اور اطمینان بخش ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت میں بھی آمریت اور شاہانہ رویے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ پہلے تو قائدین اپنے اندر جمہوری رویے پیدا کریں۔زندہ قومیں اپنے اسلاف کی قدر یوں کرتی ہیں کہ ان کی تقریبات کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھ کر ادا کرتی رہتی ہیں۔گذشتہ روز بابائے قوم محمد علی جناح کا یوم پیدائش ٹورنٹو (کینیڈا ) میں بڑے پُروقارطریقے سے منایا گیا۔ حضرت قائداعظم کا برتھ ڈے کیک کاٹنے کی ایک تقریب منعقد ہوئی جس کا اہتمام انٹاریو(ٹورنٹو) پاکستان تحریک انصاف کے سابق صدرچوہدری اکبر وڑائچ نے کیا۔مسی ساگا کے آفس میں ہونے والی یہ تقریب شدید برف باری اورخراب موسم کے باوجود رات گئے تک جاری رہی۔ اس پُروقار تقریب میں راقم کو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا جبکہ دیگر مقررین میں زاہد کھوکھر، مسعود راجا، مصباح الحق ،اشرف ملک، اسلم ملک، فراز سنگھیڑا، شہید اللہ،اکبر وڑائچ اور سینئر کامیڈین فیاض حیدرنے بابائے قوم کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔اس تقریب کی خوبصورتی یہ تھی کہ راقم جس کا پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان سے تعلق ہے کو اس تقریب کا مہمان خصوصی بنایا گیااور مائنس بیس ڈگری سینٹی گریڈ میں ہونیوالی اس تقریب کو سامعین نے انجوائے کیااور یہ عہد کیا کہ جب تک دنیا بھر میں ایک بھی پاکستانی سانس لیتا رہے گا تب تک ہم اپنے اسلاف کے دن مناتے رہیں گے۔ یہ تقریب اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل تھی کہ اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان نے ایک پلیٹ فارم پر قائد سے محبت اور عقیدت کا اظہار کیااور دیارِ غیر میں ہماری نئی نسل کیلئے ایسی تقریبات کا انعقاد بہت اہمیت رکھتا ہے۔
مسی ساگا میں قائد ڈے کی تقریبات
Dec 29, 2020