قدرت کے دو قانون ہیں شریعت اور فطرت۔ شریعت میں رحم ہے فطرت میں رحم نہیں ۔ شریعت معاف کر سکتی ہے مگر فطرت معاف نہیں کرتی۔ اگر کامیابی چاہتے ہو تو موقع دینے والے کو کبھی دھوکہ نہ دواور دوھوکہ دینے والے کو کبھی موقع نہ دو۔ یاد رکھو جب اللہ تمھیں کنارے پر لا کھڑا کرے تو اس پر کامل یقین رکھو کہ "یا تو وہ تمھیں تھام لے گا یا وہ تمھیں اُڑنا سِکھا دیگا"۔خلیفہء وقت حضرت عمر فاروقؓ اپنے گورنر سعید بن عامر ؓ کی کارکردگی کے جائزے کیلئے تشریف لائے اور مسجد میں کچہری لگائی اور لوگوں سے گورنر کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے چار شکایات لگائیں ۔ایک یہ کہ پہلے گورنر نمازِ فجر کے بعد لوگوں کے مسائل سنتے تھے اب نہیں سنتے اور گھر چلے جاتے ہیں دوسری یہ کہ ہفتے میں ایک دن نہیں ملتے تیسری یہ کہ صرف دن میں ملتے ہیں رات کو نہیں چوتھی شکایت یہ تھی کہ کبھی کبھی رونے لگ جاتے ہیں اور کبھی روتے ہوئے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ خلیفہؓ نے جب گورنر سے بازپرس کی تو گورنر با ادب عرض کرتے ہیں کہ امیر المومنین اگر میرا راز نہ کھلتا تو اچھا تھا اب سُنیں کہ میں غریب ہوں نوکر نہیں رکھ سکتا میرے بچے میرے پاس نہیں ہیں میری بیوی بیمار ہے اس نے تیس سال میری خدمت کی ہے اب میں نمازِ فجر کے بعد گھر جاتا ہوں بیمار بیوی کی دیکھ بھال کرتا ہوں گھر میں جھاڑو لگاتاہوں برتن دھوتا ہوں تو لوٹتے ہوئے دیر ہو جاتی ہے ۔ ہفتے میں ایک دن اس لیے نہیں ملتا کہ میرے پاس ایک ہی لباس ہے اسے دھوتا ہوں بیوی کے کپڑے پہن کر بیٹھا رہتا ہوں سردی کا موسم ہے اس لیے لباس کے خشک ہونے میں دیر لگتی ہے اور دن گزر جاتا ہے۔ لوگوں کی آنکھو ں میں یہ سن کر آنسو آگئے ۔پھر عرض کی خلیفہ آپکی یہ شکایت کہ میں دن میں ملتا ہوں رات میں نہیں ملتا یہ کہہ کر رونے لگے اور اپنی داڑھی کو پکڑ کر کہتے ہیں حضور دیکھیں میری داڑھی سفید ہو گئی ہے پتہ نہیں رب کب بلا لے اس لیے دن مخلوق کیلئے اور رات خالق کیلئے رکھی ہے رات رب کو منانے میں گزرتی ہے۔ چوتھی شکایت کہ میں روتے روتے بے ہوش ہو جاتا ہوں عرض یہ ہے کہ میں نے چالیس سال کی عمر میں کلمہ پڑھا جب چالیس سال کے گناہ یاد آتے ہیں تو رو پڑتا ہوں کہ حساب کیسے دوں گا برداشت نہیں ہوتا تڑپ جاتا ہوں اور پھر عرض کی خلیفہ ؓ اب میرے پردے کھُل گئے ہیں توسزا کا اعلان بھی فرمادیں ۔ جنابِ عمرفاروقؓ ہاتھ اُٹھا کر عرض کرتے ہیں یا اللہ ہمیں اور بھی ایسے گورنر عطا فرما۔ یہ ہے ریاستِ مدینہ کی ایک جھلک "شاید کہ تیرے دِل میں اُتر جائے میری بات "میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ:
بڑا غضب کا نظارہ ہے اس عجیب سی دنیا میں
لوگ سب بٹورنے میںلگے ہیں خالی ہاتھ جانے کیلئے
جبکہ انھیں یادِ خداوندی میں اسطرح رہنا چاہیے کہ کسی کے عیب دیکھنے کا موقع ہی نہ ملے اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ :
نہ عروج اچھا ہے نہ زوال اچھا ہے
جس حال میں رکھے خدا وہ حال اچھا ہے
یہ نوشتہء دیوار ہے کہ ہمارے معاشرے سے وضع داری، رواداری، احساسِ ذمہ داری جیسے ختم ہو گئی ہے سب رحمن کی بجائے شیطان کو راضی کرنے میں لگ گئے ہیں۔ ہوسِ اقتدار کیلئے حدیں کراس کر چکے ہیں اور سب کچھ ہوس اور انتقام کی آگ کے شعلوں کی نظر کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ نہ قوم کا احساس ہے نہ قوم کے احسانوں کا بلکہ اس دھرتی جس پر بار بار حکمرانی ملی اسے بھی اپنے انتقام کی آگ میں جلانے سے گریز نہیں کر رہے۔ پاکستان کی بنیادوں میں اپنا لہو بھرنے والے شہداء اور بقائے وطن کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالوں کی روحیں بھی انکی بے رُخی پر تڑپ گئی ہوں گی اور ایک سوال کر رہی ہوں گی کہ کیا پاکستان ان بے وفا اقتدار کے پجاری مافیا کیلئے بنا تھا ؟انھیں قوم اور ملک کا جتنا احساس ہے قوم وہ بھی جان چکی ہے ۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر جناب ِ عمر فاروقؓ کے زمانے میں ان کا احتساب ہوتا تو ہاتھ کاٹنے کی بجائے ان کی گردنیں کاٹی جاتیں اور انکی لمبی زبانیں کھینچ لی جاتیں ۔ کیونکہ جہاں خلیفہ خطبہ دینے سے پہلے اپنے کرُتے کاحساب دے وہاں پر ایسے لوگوں کی گنجائش نہیں ہے جو ایک دفعہ پہنا ہوا قیمتی سوٹ دوبارہ پہننا ہی گوارہ نہ کریں ۔ یہاں قوم کو سبز باغ دکھا کر پھر قوم کی توہین کرنے کے علاوہ قوم کو کیا ملا ؟