چند ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا ہاضمہ اچھا ہوتا ہے جبکہ بیشتر لوگ بدہضمی کا شکار رہتے ہیں۔ معدہ جسم کا وہ عضو ہے جو زندگی کی ابتدا سے انتہا تک مسلسل اپنا فعل انجام دیتا ہے۔ انسانی جسم میں معدہ کی اہمیت مسلم ہے۔ معدہ کے فصل میں بگاڑ کی صور ت میں جسم مختلف امراض کا شکار ہو جاتا ہے قابل توجہ امر یہ ہے کہ معدہ کے امراض کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ معدہ کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ یقینا تشویشناک صورتحال ہے۔ وجوہات میں سب سے اہم ہمارا طرز زندگی اور معاشرتی حالات بھی شامل ہیں جن میں غذا میں بے اعتدالی‘ ناقص اور ملاوٹ شدہ غذا‘ سگریٹ نوشی ‘ چائے ‘ کافی کا بکثرت استعمال ‘ بازاری مشروبات‘ مرغن غذا کا بکثرت استعمال‘ ورزش کے رحجان میں کمی نظام ہاضمہ میں خرابی کا باعث بنتی ہیں ۔ اعصابی تناؤ‘ کھانے میں مرچ مصالحوں کی زیادتی‘ دیر سے رات میں کھانے کی عادت معدہ میں تیزابیت گیس کے امراض‘ شدید بدبودار تُرش ڈکاریں‘ بدبودار ریاح کا کثرت سے اخراج منہ کا ذائقہ کڑوا‘ بھوک میں کمی ‘ پیاس زیادہ‘ غذ ا کی نالی میں درد‘ سکڑن کا احساس‘ کھانے کے بعد متلی‘ قے‘ کمزوری‘ شکم میں درد ‘ اپھارہ‘ گرگڑاہٹ‘ تشنج‘ بے چینی‘ تھکن ‘ قبض‘ جگر اور ناف کے گرد درد ‘ سینہ میں جلن‘ پانی جیسے دست بہت سارے عوارضیات جو اپنی جگہ مستقل مرض کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں یہ دراصل خوراک کی بے اعتدالی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں نظام ہضم کی بیشتر تکالیف اعصاب کا نتیجہ بھی ہوتی ہے۔ فکر مندی‘ تھکاوٹ‘ غصہ‘ پریشانی اور خوف وغیرہ نظام ہاضمہ کی کارکردگی میں خلل ڈالتے ہیں اور معدے کی سوزش کا باعث بنتے ہیں۔ باسی غذا‘ رس دار پھلوں کے استعمال سے پیدا شدہ معدہ کی خرابی سے پیچس جو ایک نہایت موذی اور تکلیف دہ مرض ہے اس میں بڑی آنت والے حصہ میں مروڑ ‘ چھبن‘ سفید یا سرخ مائل آنوں کا اخراج ‘ پاخانے کے بعد دیر تک معدہ میں جلن بھی رہتی ہے مزید کھانے کے بعد پیٹ پھول جانا‘ پیٹ بھرا ہونے کا احساس ہونا‘ کھانے کا اوپر کو آنا‘ منہ میں صفراوتی محلول کا آنا‘ پیٹ میں گڑگڑ کی آوازیں آنا‘ متلی ہوتے رہنا‘ قے آنا قے کے ساتھ خون آنا ‘ بھوک نہ لگنا‘ وزن کم ہونا‘ پاخانے سے خون میں موجود فولاد کے لگنے کی وجہ سے شدید بو آنا‘ کھانے کے دوران پیٹ میں درد گیسٹرک السر کی وجہ سے ہوتا ہے ۔کھانے کی نالی کے آخری حصے یا معدے کے آنتوں سے جڑنے کی جگہ کی خراش آنے ‘ جھلی کے ٹوٹ جانے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اسے پیٹ کے السر ‘ معدے کا السر یا گیسٹرک السر کہا جاتا ہے اگر آنت کے پہلے حصے میں ہو تو اسے ڈیوڈنیل السر کا نام دیا جاتا ہے ۔ معدہ کی جھلی میں جس جگہ خراش آجائے تو وہاں خصونت پیدا ہو جاتی ہے اس کیفیت کو السر کہتے ہیں۔یہ السر خواتین کے مقابلے میں مردوں کو دس گنا زیادہ ہوتا ہے لیکن خواتین میں درد کی شدت قدرے زیادہ ہوتی ہے کلینکل مشاہدہ میں آیا ہے کہ جرثومہ کے زیراثر معدہ میں تیزاب بننا شروع ہو جاتا ہے اس حقیقت کے علاوہ معدہ کے السر میں مبتلا افراد سے جب انکے رویوں اور عادات کے بارے میں سوالات کی مدد سے حاصل کی گئیں ان سے درج ذیل امور کا علم ہوا جو کہ کافی حد تک ان میں السر پیدا کرنے کا سبب ہوئے وہ یہ ہیں کچھ نے بتایا کہ وہ خوب تیز مرچ مصالحہ یا تیز تلی بھنی غذا کھانے کے شوقین تھے غالباً ایسے افراد کا معدہ غذا کے ہاضمے کیلئے جو ایسڈ پیدا ہوا ہے اسکے عمل میں یہ غذائیں گڑبڑ پیدا کرتی ہیں جسکی وجہ سے معدہ کی جھلی چھل جاتی ہے چند لوگوں نے بتایا کہ وہ خوب ابلتی ہوئی گاڑی پتی والی چائے پینے کے شوقین تھے یہ بات تو مسلم ہے کہ کھانے کے بعد ایسی چائے پینے سے غذا میں سے فولاد اور وٹامن بی کا انجذاب نہیں ہوتا اس سے یہ نتیجہ اختر کیا جاتا ہے کہ ان اشخاص کا معدہ اس درجہ حرارت کو برداشت نہیں کر پاتا اس وجہ سے اسکی جھلی چھل گئی اور اس سبب سے السر بنا۔ بعض افراد کھانا کھانے کے بعد ٹھنڈے مشروب پینے کے عادی ہوتے ہیں یہ بات تو ثابت ہے کہ ایسے مشروبات غذا سے چونا کے انجذاب میں خلل ڈالتے ہیں۔تشخیص کیلئے ظاہرہ علامات کے ساتھ معدہ میں تیزابیت کے اثر کو ختم کرنیوالی ادویات کا استعمال کرایا جاتا ہے اسکے علاوہ سیریم نگلنے سے متعلق ٹیسٹ‘ خون کا لیبارٹری ٹیسٹ‘ پاخانے کا لیبارٹری ٹیسٹ‘ سانس میں پیشاب کی سی بو آنے سے متعلق ٹیسٹ‘ متعلقہ جگہ کی بائی آپسی یہ سب کچھ اسلئے ضروری ہوتا ہے کیونکہ معدے کے کینسر‘ معدے کے ورم‘ دل اور پتے کی بیماریوں میں بھی ایسی ملتی جلتی علامات ہوتی ہیں اگر پرہیز اور علاج نہ کیا جائے تب تکلیف دہ پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آنتوں کے دیواروں میں سوراخ ہو جاتے ہیں‘ خون رستا ہے۔ آنتوں میں ورم ہو جانے سے پاخانے کو آگے دھکیلنے کی صلاحیت نہیں رہتی یا رکاوٹ پیدا ہونے سے درد رہتا ہے اور قبض ہو جاتی ہے۔ ان امراض کے بچاؤ کیلئے ہر قسم کے نشہ آور شراب نوشی ‘ سگریٹ نوشی سے اجتناب برتنا چاہئے ۔