اسلام آباد(محمد صلاح الدین خان) آئینی ماہرین کے مطابق ریاست کی بنیاد تین ستونوں ،مقننہ ، عدلیہ ، انتظامیہ پر ہوتی ہے ان کے بغیر ریاست اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی، مقننہ (پارلیمنٹ )جہاں عوام کے منتخب نمائندے بیٹھے ہیں ملک کے ہر مسلے ، کا حل باہمی مشاورت سے جمہوری انداز میں نکالتے احکامات جاری کرتے ہیں پھر ان احکامات کو انتظامیہ کے ذریعے نافذ العمل کرویا جاتا ہے جبکہ ملک کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ یہ دیکھتی کہ جمہوری نمائندوں کا کوئی عمل قانو ن کے خلاف تو نہیں یعنی آئین کی تشریح عدالت ہی کرتی جبکہ وفاق صوبوں کے تناعات اور مقدمات کے فائنل فیصلے ایپکس کورٹ سپریم کورٹ ہی کرتی ہے ، پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سپریم کورٹ نے تاریخ ساز فیصلے دیئے ہیں جبکہ اس کے کچھ فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے، عدالتیں آئین و قانون کے مطابق چلتی ہیں قانون بالا دست ہے ملک میں قانون کی بالادستی اور حکمرانی سے ہی پرامن ، خوشحال،جمہوری ریاست کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے قانون جتنا طاقت ور ہوگا ریاست میں اتنا امن وامان ڈسپلن ہوگا،بدقسمتی سے عدالتی سسٹم بہتر نہ ہونے کے باعث ایک مقدمہ کے فیصلے میں اوسطاً تیس سے چالیس سال لگ جاتے ہیںجو فوری اور سستے انصاف کے سلوگن سے متصادم ہے یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر عدالتوں میں مقدمات کے انبار لگے ہوئے ہیں جن میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے مگر متفرق وجوہات کے باعث ڈیڈ لاک ختم نہیں ہورہا ہے دیوانی، فوجداری مقدمات کے خاتمہ کے لیئے جوڈیشری ناکافی وسائل کے باجود عوام کو انصاف فراہم کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے مگریہ لا امتناعی سلسلہ ہے جو ناانصافی سے شروع ہوتا۔ سال 2020ء تک مجموعی طور پر 22لاکھ سے زائد مقدمات عدالت عظمیٰ، عدالت عالیہ ، ماتحت عدلیہ شرعی عدالت ودیگر کوٹس میں التواء کا شکارہیںاس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ، مسٹر جسٹس گلزار احمد ہیں جو دو فروی 2022کو ریٹائرڈ ہوجائیں گے ۔ قومی عدالتی پالسیی ساز کمیٹی کے اعدادو شمار کے مطابق سال 2020ء کے اختتام تک سپریم کورٹ آف پاکستان اور اسکی تمام رجسٹریوں اسلام آباد، پشاور، لاہور، کراچی، کوئٹہ برانچوںمیں زیرالتواء مقدمات کی تعداد 45673ہے،ان میں سپریم کورٹ اسلام آباد پرنسپل سیٹ میں 288،پشاور سپریم کورٹ رجسٹری برانچ 46،لاہور193۔کراچی262۔کوئٹہ 35۔نئے مقدمات کا اندراج ہوا ان میں سے بل ترتیب686.اسلام آباد سپریم کورٹ ، جبکہ پشاور صفر۔لاہور 309، کراچی64،کوئٹہ صفر،ٹوٹل 1059مقدمات نمٹائے گئے اوسطاً اسی تناسب سے دسمبر میں مقدمات نمٹائے گئے جس کے بعدسپریم کورٹ میں مجموعی طور پر زیر التواء مقدمات کی تعداد 45673رہ گئی ہے۔اسی طرح تمام ہائی کورٹس ، لاہور ہائی کورٹ میں 215326مقدمات زیرالتواء ہیں،سندھ ہائی کورٹ میں 96389مقدمات ،پشاور ہائی کورٹ میں43958مقدمات ،بلوچستان ہائی کورٹ میں 6072مقدمات، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 18110مقدمات زیر التواء ہیں۔پنجاب کی ڈسٹرکٹ کورٹس میں 1301278مقدمات زیرالتواء ہیں، اسی طرح سندھ ڈسٹرکٹ کورٹس میں 120523مقدمات زیر التواء ہیں، خیبر پختوانخواہ ڈسٹرکٹ کورٹس میں 240028مقدمات، ڈسٹرکٹ کورٹس بلوچستان میں 19428مقدمات ، اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹس میں 50198مقدمات التواء کا شکار ہیں۔حکومت عدالتوں سے مقدمات کا بوچھ کم کرنے ، جرائم کے خاتمے اور لوگوں کو انصاف فراہم کرنے لیئے متعلقہ اداروں کی مشاورت سے اقدامات اٹھارہی ہے اس حوالے سے ایس او پیز بنائے گئے ہیں ان میں ججز اور عدالتوں کی تعداد بڑھائی جارہی ہے مقدمات کا ٹائم فریم دیا جارہا ہے یعنی یہ مقدمہ مقررکردہ مدت تین، چار ، چھ ماہ یا ایک سال تک نمٹاتے ہوئے کیس کا فیصلہ دیا جائے ۔عدالتوں کو عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا ۔ جب تک ججز آزاد، خودمختار اور بیرونی دبائو سے بالاتر نہیں ہونگے تب تک انصاف کا حصول ممکن نہیں ،عدالتوں میں مقدمات کی سماعت میںتاخیر، مقدمات کا التوا ، سٹے آرڈر (حکم امتناعی) مسائل اور معاملات بھی زیر غور ہیں۔ عدلیہ میں بڑے پیمانے پر زیر التوا مقدمات بھی ایک مسلہ ہیں۔سال 2020میں ملک کی اعلیٰ عدالیہ اور نیب کورٹس میں سیاست دانوں کے خلاف کرپشن اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق مقدمات کی بھر مار رہی ،سب سے زیادہ مقدمات مسلم لیگ ن کے راہنمائوں کے خلاف اس کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف زیر سماعت رہے ،۔سال 2020میںحکومت نے حزب اختلاف کی مخالفت اور رکائوٹوں کے باجودقانون سازی کا عمل رکھا ، جو قانون پارلیمنٹ سے فوری پاس نہ ہوسکا اس کے لیئے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جاتا رہا،قومی اسمبلی کے سات نومبر 2020کے اجلاس میں اپوزیشن کے شورشرابہ، ہنگامہ آرائی اور احتجاج کے باوجود وفاقی حکومت نے11بلز قومی اسمبلی سے منظور کروا لیے،گیارہ بلز میں سے 9آرڈینسز صدر نے چند دن قبل جاری کیے تھے ، تین آرڈینسز میں ا120 دن کی توسیع کی قراردادیں بھی منظور کرلی گئیں ۔وفاقی وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم کا مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے حوالے سے کہنا ہے کہ دیوانی مقدمات کے فیصلے اب ایک سے ڈیڑھ سال میں ہوں گے،مدد کی منتظر خواتین اور بچوں کے لئے خصوصی ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے،وراثت کا سرٹیفکیٹ 15 دن کے اندر جاری کیا جائے گا۔ بعدازاںنیب ترمیمی آرڈیننس 2019 نافذ العمل ہوگیا ہے۔وفاقی وزارت قانون نے نیب ترمیمی آرڈیننس کی سمری وزیراعظم عمران خان کو ارسال کی جس کی کابینہ اراکین نے بذریعہ سرکولیشن منظوری دی ۔نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کی سمری وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد صدر مملکت عارف علوی کو بھجوائی انہوں نے بھی اس کی حتمی منظوری دے دی ہے، وزارت قانون کے نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعدنیب ترمیمی آرڈیننس 2019 نافذ العمل ہوگیا ہے۔
عدالتوں کو عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا ،آئینی ماہرین
Dec 29, 2020