وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ روز پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دیدی گئی جسے حتمی منظوری کیلئے منگل کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ وزیراعظم کی سربراہی میں منعقد ہونیوالے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ‘ نیول چیف‘ ایئرچیف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی نے بھی شرکت کی جبکہ وفاقی کابینہ کے ارکان شیخ رشید احمد‘ فواد چودھری اور معیدیوسف بھی اجلاس میں شریک تھے۔ اس اجلاس کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی ایک جامع قومی سلامتی فریم ورک کے تحت ملک کے کمزور طبقے کا تحفظ‘ سکیورٹی اور وقار یقینی بنائے گی۔ انکے بقول شہریوں کے تحفظ کی خاطر سکیورٹی پالیسی کا محور معاشی سکیورٹی ہوگا اور معاشی تحفظ ہی شہریوں کے تحفظ کی ضمانت بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے فریم ورک تیار کیا گیا ہے۔
اجلاس میں افغانستان کی صورتحال پر مفصل بریفنگ دی گئی جبکہ اجلاس میں آئندہ کی حکمت عملی بھی طے کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے اجلاس کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا تحفظ شہریوں کے تحفظ سے منسلک ہے۔ پاکستان کسی بھی داخلی اور خارجی خطرے سے نبردآزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ انکے بقول ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی تیاری اور منظوری ایک تاریخی اقدام ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ اس پالیسی پر مؤثر عملدرآمد کیلئے تمام ادارے مربوط حکمت عملی اپنائیں۔
ہمارے ملک میں شہریوں کی جان و مال کے حوالے سے دو دہائیاں قبل امریکی نائن الیون کے بعد نیٹو فورسز کی جانب سے افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر شروع کی گئی اپنے مفادات کی جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے باعث عدم تحفظ کی فضا پیدا ہوئی تھی کیونکہ اس کردار کے ردعمل میں ہی پاکستان کی سرزمین پر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا آغاز ہوا جبکہ امریکہ خود بھی پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کرتے ہوئے پاکستان کی سرزمین کو ڈرون حملوں کی زد میں لاتا رہا۔ دہشت گردی کی زیادہ تر وارداتوں میں ڈرون حملوں میں جاں بحق اور زخمی ہونیوالے افراد کے عزیز و اقارب ملوث ہوتے تھے جبکہ ملک میں پیدا ہونیوالی عدم تحفظ اور عدم استحکام کی اس فضا سے ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی خوب فائدہ اٹھایا جس نے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بھارتی ’’را‘‘ کا نیٹ ورک پھیلا کر امریکی کٹھ پتلی کابل انتظامیہ کے ایماء پر افغان دھرتی اپنے دہشت گردوں کی تربیت کیلئے استعمال کی اور یہ دہشت گرد بھارتی سرپرستی میں ہی اسلحہ‘ گولہ بارود اور خودکش جیکٹس سمیت پاکستان میں داخل ہو کر یہاں دہشت گردی کی فضا گرماتے رہے۔
خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں میں پاکستان کو دس ہزار کے قریب اپنے سکیورٹی اہلکاروں اور معروف سیاست دانوں سمیت 70 ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ دو ارب ڈالر سے زائد کے ہونیوالے مالی نقصانات سے پاکستان کی معیشت کو بھی سخت دھچکا لگا۔ چونکہ پی ٹی آئی کی قیادت کو حکومت میں آنے سے بھی پہلے افغان جنگ میں امریکی فرنٹ اتحادی والے پاکستان کے کردار پر تحفظات تھے جس سے قومی خودمختاری اور ملکی سلامتی پر بھی زد پڑ رہی تھی اس لئے عمران خان نے عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کے اس کردار پر نظرثانی کیلئے قومی خارجہ پالیسی میں قابل ذکر تبدیلیاں کیں۔ چونکہ امریکہ خود بھی اپنے خطیر جانی اور مالی نقصانات کے باعث افغان جنگ سے باہر نکلنا چاہتا تھا اس لئے پاکستان نے اپنی سلامتی کے تحفظ اور اپنی معیشت کے استحکام کی خاطر افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکہ کی معاونت کی جس کے نتیجہ میں بالآخر افغان جنگ کا خاتمہ ہوا اور طالبان کو کابل کے اقتدار تک دوبارہ رسائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان کے اسی کلیدی کردار کے تناظر میں آج بھی خطے میں پاکستان کی سٹریٹجیکل اہمیت تسلیم شدہ ہے اور اسکی میزبانی میں ٹرائیکا پلس اور او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاسوں سمیت اب تک متعدد عالمی اور علاقائی سطح کے نمائندہ اجلاس منعقد ہو چکے ہیں جن کے ذریعے افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن و استحکام کی فضا ہموار ہوئی ہے۔
چونکہ ان دو دہائیوں میں افغان سرزمین ہی دہشت گردی کا منبع رہی ہے اس لئے افغانستان میں مستقل امن کے ذریعے ہی علاقائی امن و سلامتی کی ضمانت مل سکتی ہے اس لئے اس خطہ کے ممالک کے علاوہ مغرب و یورپ بھی افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار پر صاد کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں امن کے مستقل قیام کا ہمیں اپنے امن و استحکام کی صورت میں براہِ راست فائدہ پہنچے گا اس لئے افغانستان کا امن ہماری اپنی بھی ضرورت ہے جس کیلئے پی ٹی آئی کی سیاسی اور حکومتی قیادتیں سرگرم عمل ہیں اور پوری دنیا ہماری ان کوششوں کی قائل ہو چکی ہے۔ افغان جنگ کے باعث خطے میں پیدا ہونیوالی عدم استحکام کی فضا میں چونکہ پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جسے بھارت کی جانب سے ملکی سلامتی کے چیلنجز درپیش ہیں اور ملک کے اندر عدم استحکام اور شہریوں کیلئے عدم تحفظ کی فضا سے بھی بھارت اور دوسرے ملک دشمن عناصر کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کا موقع مل رہا ہے اس لئے ایسے چیلنجوں سے عہدہ برأ ہونے کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے قومی سلامتی پالیسی کا اجرأ ایک اہم پیش رفت ہے۔ بے شک عساکر پاکستان پہلے ہی ملک اور شہریوں کے تحفظ کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں اور اس معاملہ میں درپیش ہر چیلنج کا فوری اور مسکت جواب دے چکی ہیں جس پر پوری قوم کو افواج پاکستان پر فخر ہے‘ تاہم اپنے دفاعی حصار میں کسی ہلکی سی بھی کمزوری کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے اور شاطر دشمن کی ہر سازش ناکام بنانے کیلئے عساکر پاکستان کا ہمہ وقت مستعد وچوکس رہنا ضروری ہے۔ اس تناظر میں قومی سلامتی پالیسی پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کرکے ملک اور شہریوں کا تحفظ اٹل اور ناقابل تسخیر بنایا جانا چاہیے۔ ہماری حکومتی سیاسی اور عسکری قیادتوں کو بھی یقیناً اس کا مکمل ادراک ہے جنہوں نے قومی سلامتی پالیسی کا اجرأ کرکے اپنے باہم یکجہت اور سرگرم ہونے کا ٹھوس پیغام دیا ہے۔ ملکی اور قومی سلامتی کے تحفظ کی خاطر ایسے ہی ادارہ جاتی اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔ خدا اس وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو۔