دنیا بھر میں مقامی سطح کی حکومتوں کا قیام سماجی ، انتظامی اور خصوصاً معاشی ترقی کے لیے عمل میں لایا جاتا ہے۔ مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل کے حل کیلئے مقامی حکومتوں کو سب سے موثر ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ جمہوری م±لک میں شہروں کے مئیر یا مقامی حکومتوں کے انچارج عوام کے منتخب سیاسی نمائندے ہوتے ہیں، مگر مقامی حکومت کا سارا انتظام ماہر ین اور سول سرونٹس چلاتے ہیں۔ منتخب افراد پر مشتمل کونسلز یا کمیٹیاں علاقہ کے عوام کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوتی ہیں مگر ان مسائل کے حل کیلئے بنیادی کام کی نگرانی کا عمل تجربہ کار ماہرین اور سول سرونٹس کے ذمہ ہوتا ہے۔ مقامی سطح پر سیاستدان یا سیاسی جماعتیں صرف نمائشی یا دکھاوے کا کردار ادا کرتی ہیں، جبکہ عملی اور موثر اقدامات کرنا بیوروکریسی کا کام ہے۔ گویا مقامی سطح کی حکومتیں معاشی اور سماجی ترقی کے ادارے تصور ہوتے ہیں نہ کہ سیاسی ادارے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں مقامی حکومتوں کو سیاست چمکانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، معاشی اور سماجی ترقی کیلئے ان اداروں کا کردار انتہائی محدود رہا ہے۔ پاکستان میں مقامی یا بلدیاتی حکومتوں کی ناکامی کی بڑی وجہ ان کے انتخابات کا وقت اور طریقہ کار ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد مقامی حکومتوں کو آئینی ادارے ہونے کا درجہ تو حاصل ہوگیا ہے مگر بروقت انتخابات کیلئے یہ ادارے ابھی بھی مکمل آئینی تحفظ حاصل نہیں کرسکے۔ مقامی حکومتیں ابھی بھی انتخابات کیلئے صوبائی حکومتوں کی محتاج ہیں، صوبائی حکومتیں مختلف وجوہات کی بنا پر بہانے بہانے سے بلدیاتی انتخابات کو ٹالتی آئی ہیں اور اگر صوبائی حکومتوں کو انتخابات کرانے بھی پڑے تو وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی وجہ سے۔ شاید ہی کبھی ایک آدھ بار کسی صوبائی حکومت نے بغیر عدالتی دباو¿ کے اپنی مرضی اور خوش دلی سے انتخابات کروائے ہوں۔
پاکستان میں بلدیاتی انتخابات فوجی حکمرانوں کے لیے عوام میں اپنی قبولیت اور مقبولیت قائم رکھنے کا واحد سیاسی حربہ رہے ہیں، فیلڈ مارشل ایوب خان نے ب±نیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کروایا، جنرل محمد ضیاالحق کے مقامی حکومتوں کے نظام سے لیکر جنرل پرویز مشرف کے نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے سات نکاتی ایجنڈا تک، اصل مقصد اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے سہارے ڈھونڈنے کے علاوہ اور ک±چھ نہ تھا۔ مگر ہوتا یہ رہا کہ جب ان فوجی حکمرانوں کے دور کا خاتمہ ہوتا تھا تو نئی آنےوالی سول جمہور ی حکومتوں کو یہ بلدیاتی ادارے ورثہ میں ملتے تھے، مارشل لاءدور کی باقیات کو سول و جمہوری حکومتیں کسی طرح برداشت نہیں کرتی تھیں اور ان کا پہلا کام ان اداروں کا خاتمہ ہوتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لےکر ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف تک ، اور پھر بعدازاں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں بھی ان بلدیاتی اداروں کا خاتمہ کیا گیا۔ بالفرض اگر کسی سول جمہوری حکومت نے دوبارہ سے ان بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروائے بھی، اور وہ حکومت اگر خود اپنی مدت مکمل نہ کرسکی تو آنے والی نئی سول حکومت کے لیے یہ ادارے قابل قبول نہ تھے۔ سو ان اداروں کو پھر ختم کردیا جاتا ۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے حکم پر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بلدیاتی ادروں کے انتخابات کروائے گئے ہیں، اب سندھ اور اسلام آباد کی باری ہے، مگر صوبائی حکومتوں نے ان انتخابات کے انعقاد کے لیے کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
بلدیاتی اداروں کے حوالہ سے ایک اہم مسئلہ ان کے جماعتی اور غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کا بھی رہا۔ پاکستان میں بلدیاتی انتخابات جماعتی اور غیر جماعتی کروانے کے حوالہ سے بھی دونوں تجربات دہرائے جاچکے ہیں۔ مگر ان اداروں کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ان اداروں کے انتخابات کا وقت بے وقت ہونا ہے۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں قومی اور صوبائی حکومتوں کے قیام کیلئے جو عام انتخابات کرائے جاتے ہیں اس کیلئے غیر سیاسی نگران حکومتیں قائم کی جاتی ہیں تاکہ کوئی ان انتخابات پر اثر انداز نہ ہوسکے، مگر بلدیاتی انتخابات اس اصول کے بالکل برعکس کروائے جاتے ہیں، قومی اور صوبائی حکومتیں اپنا بھرپور سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتی ہیں۔ صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کے وسائل اور اختیارات کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اپنی من مرضی کے نتائج حاصل کیے جاسکیں۔
مگر اب وقت آگیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کیلئے بھی قومی اور صوبائی حکومتوں کی طرح ایک مقررہ مدت طے کرلی جائے، مقامی حکومتوں کا خاتمہ اور قیام بھی قومی اور صوبائی حکومت کے خاتمے اور قیام سے جوڑ دیا جائے تاکہ مقامی حکومتوں کے قیام اور تسلسل میں غیر جانبداری، اعتدال، اور شفافیت لائی جاسکے، قومی، صوبائی، اور مقامی حکومتوں کے اختیارات میں اس طرح کی تقسیم کو یقینی بنایا جائے جس سے مقامی حکومت کے ادارے سیاسی کھیل تماشہ کا حصہ بننے کی بجائے مقامی سطح پر سماجی فلاح و بہبود اور معاشی ترقی کے ادارے بن سکیں۔ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے جب ان اداروں کے بارے میں عوام میں شعور اور آگاہی پیدا کی جائے کہ ان اداروں کا بنیادی مقصد ہی مقامی افراد کو ان کی دہلیز پر انکے مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ان اداروں کو زیادہ سے زیادہ معاشی خودمختاری دی جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اختیارات بانٹنا پسند نہیں کرتیں، ہر کوئی سارے اختیارات اپنی ذات میں مرتکز رکھنا چاہتا ہے۔ لوگ آج بھی اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعہ دی گئی صوبائی خودمختاری پر جِز بِز ہوتے ہیں۔ اسی طرح صوبائی سطح کے سیاستدان اپنے اختیارات مئیر یا مقامی حکومت کے عہدیداروں کو نہیں دینا چاہتے۔ سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کے اختیارات کے حوالہ سے تنازع سب کے سامنے ہے۔ لیکن پاکستان میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا انعقاد، قومی اور صوبائی انتخابات کی طرز پر اور اپنے مقررہ وقت پر نہ ہونا سب سے اہم بنیادی مسئلہ ہے۔ آئندہ قومی، صوبائی، اور مقامی حکومتوں کے انتخابات ایک ہی وقت پر کروائے جائیں، تاکہ اس گھمبیر مسئلہ کا حل نکل آئے اور م±لک سیاسی و معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔