عبد الوہاب صاحب چپکے سے دنیا سے رخصت ہو گئے ۔وہ پیشین گوئیوں میں مہارت رکھتے تھے ، ہاتھوں کی لکیروں پر نظر دوڑاتے تھے ،ستاروں کی چالوں کا خاکہ بناتے تھے اور کبھی علم الااعداد سے مدد لیتے تھے ۔میں ان سب باتوں کے بجائے اگر ایک بات کہوں کہ وہ ولی اللہ تھے ۔بڑے متقی ‘تہجد گزار اور ہر دم قرآن کی تلاوت میں مصروف۔ فارغ وقت میں بھی وظیفہ یا درود ۔دنیا داری کی باتیں ان کی زبان پر کم ہی آتی تھیں ۔وہ خاموش طبع انسان تھے ۔کوئی ہفتہ دس دن پہلے گھر میں انہیں سر کی چوٹ لگی اور وہ بالکل خاموش سے ہو کر رہ گئے ۔انہیں ایک جدید ترین نجی ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں ان کے دماغ کا ایک آپریشن بھی ہوا۔چند دن کے لیے انہیں وینٹی لیٹر پر بھی ڈالا گیا۔ پھر وینٹی لیٹر تو ہٹ گیا لیکن انہیں چوبیس گھنٹے آکسیجن دی جا رہی تھی۔ایک آدھ مرتبہ انہوں نے آنکھیں بھی کھولیں لیکن وہ کچھ بولنے اور سننے کے قابل نہ تھے ۔چند روز بعد بے ہوشی کی اسی حالت میں ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اناللہ و انا الیہ راجعون ۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام بخشے ۔آمین ۔
ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی یہ تو یاد نہیں لیکن ان سے ربع صدی کا ساتھ ہے ۔لاہور کے ایک ہوٹل میں پی سی آئی اے کی محفل ہفتہ وار سجتی جہاں نئے لوگوں سے تعارف ہوتا اور پھر ایک مستقل تعلق بن جاتا ۔پیشے کے لحاظ سے وہ ایڈووکیٹ تھے لیکن انہوں نے کبھی پریکٹس نہیں کی ۔ان کی یہ صفت زبان زد عام ہوگئی کہ وہ ہاتھ دیکھ کر مستقبل کی پیشین گوئی کر سکتے ہیں ۔ہر کوئی ان کے آگے ہاتھ پھیلا دیتا ۔اور اپنے مستقبل کا حال جاننے کی کوشش کرتا ۔ایک بار جسٹس اعجاز نثار پی سی آئی اے میں مہمان کے طور پر تشریف لائے وہ ان دنوں لاہور ہائی کورٹ میں جج تھے ۔میں نے عبدالوہاب صاحب سے فرمائش کی کہ وہ جسٹس صاحب کا ہاتھ دیکھ کر بتائیں کہ انہوں نے آگے ترقی کی کیا کیا منزلیں طے کرنی ہیں ۔انہوں نے جج صاحب کا ہاتھ دیکھ کر کہا کہ ان کی قسمت کی لکیر بہت طاقت ور نظر آرہی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنیں گے اور ترقی کرکے سپریم کورٹ میں بھی شامل ہوں گے ۔ریٹائر ہونے کے باوجود انہیں اللہ تعالیٰ مزید عزت دے گا ۔ان کی یہ تینوں پیشین گوئیاں پوری ہوئیں ۔جسٹس اعجاز نثار لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی مقرر ہوئے اور وہاں سے انہوں نے سپریم کورٹ کا رخ بھی کیا ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ بھی بنے ۔عبد الوہاب صاحب نے ہمارے ساتھ ایک نشست میں اپنی ماضی کی پیشین گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بھٹو کی پھانسی کے بارے میں پیشین گوئی ان کی فلاں اخبار میں چھپی تھی اور جنرل ضیا ءالحق کے طیارہ حادثے کے بارے میں بھی ان کی پیشین گوئی ایک اخبار کی زینت بنی تھی۔ان کے مزاج میں انکساری اور عاجزی کا عنصر شامل تھا ۔وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ان کے پاس کوئی غیبی علم نہیں ہے یہ سب اللہ کی دےن ہے ۔ ایک مرتبہ کسی سیاست دان کی بیگم صاحبہ نے مجھے کہا کہ وہ اپنی تین بیٹیوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں اور عبد الوہاب صاحب کو انکے ہاتھ دکھانا چاہتی ہیں تاکہ ان کی قسمت کا اتا پتا چل سکے ۔میں عبد الوہاب صاحب کو انکے گھر لے گیا جہاں تینو ں لڑکیوں کے ہاتھوں کے پرنٹ لیے گئے ۔عبد الوہاب صاحب نے تینوں لڑکیوں کے ہاتھوں کے پرنٹ دیکھے اور بلا توقف کہنے لگے کہ ان کی قسمت میں سفر بہت لکھا ہے ۔ایک لڑکی نے مذاق سے کہا کہ میرا کوئی ارادہ ائر ہوسٹس بننے کا نہیں ہے ۔اتفاق کی بات ہے دو لڑکیوں کی شادی امریکہ میں مقیم پاکستانی نوجوانوں سے ہوئی تو وہ نکاح کے چند روز بعدہی پردیس سدھار گئیں۔ تیسری کی شادی لاہور میں ہوئی ،انکے شوہر ڈاکٹر تھے وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے جہاں چند برس بعد انہوں نے اپنی بیگم صاحبہ کو بھی پاس بلا لیا اور یوں یہ بھرا ہوا گھر خالی ہو گیا ۔ اب لڑکیوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے وہ والدین اور سسرال کو مل کر پھر واپس چلی جاتی ہیں ۔
مشہور تھا کہ چودھری پرویز الٰہی کے ہاتھ پر اقتدار کی لکیر نہیں ہے ۔میرا چوہدریوں کے ہاں بہت آنا جانا تھا ،صبح کا ناشتہ بھی وہیں،شام کا کھانا بھی وہیں اور جب رات گئے ان کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوتیں تو میں گھر آجاتا ۔اس قدر قربت کی وجہ سے میں بھی پریشان تھا کہ کئی مواقع آئے مگر چودھری پرویز الٰہی اقتدار کے اعلیٰ منصب تک نہ پہنچ سکے ۔میں نے خودہی فیصلہ کیا کہ چودھری صاحب کا ہاتھ عبد الوہاب صاحب کو دکھاتا ہوں ۔انہوں نے ہاتھ دیکھ کر کہا کہ اقتدار کی لکیر کی بات تو میں بعد میں کروں گا پہلے میں ایک خطر ناک لکیر سے پریشان ہوں جو ان کی زندگی کے لیے خطرے کا اشارہ کر رہی ہے ۔عبد الوہاب صاحب نے کہا کہ پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اللہ نے مجھے جوعلم عطا کیا ہے اس کی مدد سے میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں کہ آپ جان کو لاحق خطرات سے بچانے کے لیے الٰہی کو i کی جگہ e سے لکھنا شروع کردیں تو یہ خطرہ ختم ہو جائے گا ۔رہی بات اقتدار کی لکیر کی تو عام دست شناس تو یہی کہیں گے کہ آپ کے ہاتھ میں اقتدار کی لکیر نہیں ہے لیکن میں ایک نئی لکیر پھوٹتی دیکھ رہا ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ آ پ اقتدار میں آئیں گے اور بار بار آئیں گے اور طویل عرصے تک اقتدار کے تخت پر متمکن رہیں گے ۔یہ خدا کی قدرت کا ظہور ہوا ،مشرف دور میں پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے اور پاکستان کی تاریخ میں وہ کسی صوبے کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے جنہوں نے اپنی ٹرم کے پانچ سال مکمل کیے ۔اس کے بعد زرداری کی حکومت کا دور آگیا ،وہ ق لیگ کو قاتل لیگ کہہ چکے تھے اور پرویز الٰہی کو بے نظیر کے قتل کیس میں بھی نامزد کر چکے تھے ۔میں نے ایک روز عبد الوہاب صاحب سے پوچھا کہ اب تو پرویز الٰہی صاحب کا ستارا گردش میں ہے مگر انہوں نے کہا کہ میں پرویز الٰہی کو پھر اقتدار میں آتا دیکھ رہا ہوں اور پھر ایک معجزہ ہوا اور اسی زرداری حکومت کے نیچے پرویز الٰہی نائب وزیر اعظم بنائے گئے۔اب پچھلے آٹھ نو ماہ سے لوگوں کا اقتدار ڈانوا ڈول ہو رہا ہے‘ یار لوگ پرویز الٰہی کے ہاتھوں سے اقتدار کی لکیر کھرچنے کی بھی کوشش کرتے ہیںلیکن وہاں نئی لکیریں پھوٹ نکلتی ہیں اور پرویز الٰہی کی جھولی اقتدار سے خود بہ خود بھرجاتی ہے ۔
میں ایک اور واقعہ سنا کر کالم ختم کرتا ہوں ،آئی جی پولیس چودھری سردار محمد زندگی کے آخری دنوں میں بہت علیل رہنے لگے ۔میں روزانہ ان کی عیادت کے لیے نہ صرف خود جاتا بلکہ گاڑی بھر کر دوستوں کو بھی لے جاتا ۔ان میں عبد الوہاب صاحب بھی شامل ہوتے ،میں نے انہیں چھیڑا کہ کچھ چودھری سردار محمد کی صحت کے بارے میں تو بتائیں ۔عبد الوہاب صاحب نے چودھری صاحب کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور الٹ پلٹ کر اس کا جائزہ لیا اور بڑے ٹھنڈے لہجے میں کہا کہ یہ سات روز بعد زندہ نہیں رہیں گے ۔ہم سب حیران تھے کہ اس قدر نپی تلی پیش گوئی کیسے پوری ہو سکتی ہے ۔مگر عبدالوہاب بضد تھے کہ جو میں نے کہا ہے سچ ثابت ہوگا ۔بالآخر وہی ہوا ،ٹھیک ساتویں روز صبح سویرے آئی جی چودھری سردار محمد کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔رہے نام اللہ کا۔ اب عبدالوہاب صاحب خود بھی اس دنیا میں نہیں رہے مگر ان کی یادیں دل و دماغ میں ہلچل مچاتی رہیں گی ۔