ڈیفالٹ کا رونا رونے والے کس کے لیے کام کررہے ہیں ؟


قومی افق
عترت جعفری
سیاسی ایشوز تو چلتے رہتے ہیں اور یہ زندگی کا  حصہ ہیں،دانا کہتے ہیں کہ وقت، دولت ہے اس کا استعمال بہت ہی احتیاط اور اچھے طریقہ سے ہونا چاہئے ،مگر چونکہ اس ملک میں وقت کی اہمیت کو سمجھا نہیں گیا ،اس لئے بہت سا وقت بس بے تکی سیاسی بحثوں اور الجھنوں میں گزرجاتا ہے ،اس وقت اگر دیکھا جائے تو سارا نظام ایک ایشوکے گرد گھوم رہا ہے کہ آئندہ انتخابات کب ہوں گے اور کیا یہ وقت پر ہوں گے ، یاوقت سے پہلے ہوں گے یا وقت پر ہوں گے بھی یا نہیں یا ان کو مقررہ وقت سے آگے بڑھا دیا جائے گا ؟اسی کے پس منظر میں پی ٹی آئی کی جانب سے قومی  اسمبلی سے استعفوں اور پنجاب اور کے پی کے اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بارے میں تواتر سے بیانات اور اقدامات کی ا طلاعات منظر عام پر آتی رہتی ہیں ،اور حکومت اس طرح کی ہر کوشش کے جواب میں کہتی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے قومی انتخابات وقت پر ہوں گے ،پنجاب اسمبلی کا معاملہ تو سب کے سامنے ہیں پی ٹی آئی نے دو اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی تاریخ23دسمبر بتائی تھی مگر ایسا نہ ہو سکا ،کیونکہ اس دوران تین تحاریک عدم اعتماد پنجاب اسمبلی میں آ گئیں ،گورنر پنجاب نے وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کہہ دیا ،اب یہ معاملہ عدلیہ کے سامنے ، مگر کے پی کے اسمبلی میں ایساکوئی ایشو نہیں تھا ،اس کے باوجود صوبائی اسمبلی کو توڑنے کے متعلق کوئی ایڈاویس نہیں بھیجی گئی ،قومی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کے طرف سے مستعفی ہونے کے اعلان کو رسمی شکل دینے میں ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں ،یہ سارا  معاملہ '' کبھی وہ نہیں اور کبھی ہم نہیں'' کے مصداق پر چل رہا ہے،اس سارے  پیچ دار مرحلہ کو دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ انتخابات کے جلد انعقاد کو ممکن بنانا اتنا آسان نہیں ہے ،خاص طور پر آئندہ سال مارچ میں ووٹ کا مرحلہ طے ہونا ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا ، پی ٹی آئی کے سربراہ  عمران خان کا ایک بیان ریکارڈ پر ہے جس میں وہ آئندہ سال اکتوبر میں جب اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر چکی ہوں گی ،انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک ظاہر کر رہے ہیں ،یعنی ان کے ذہن میںحکومت کی نیت کے بارے  میں شک موجود ہے  ،یہی وہ نکتہ ہے جس  پر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان بات ہو نا چاہئے ،اور حکومت یہ یقین دہانی  کرا دے  کہ اسمبلیوں کی مدت میں توسیع کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی اور اکتوبر 2023ء میں انتخابات ہو جائیں گے تو شائد یہ ایشو نبٹ جائے ،باقی اگر دونوں جانب سے اپنے اپنے موقف پر اصرار جاری رہا تو اس سے ملک کو نقصان ہو گا ،فریقین  کو سمجھ جانا چاہے کہ ملک کے معاشی حالات سب کے سامنے ہیں،معاشی مشکلات ہیں ،وفاقی وزیر منصوبہ بندی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ آخراجات کم کرناہوں گے ،ایسے حالات میں ملک دشمن طرح طرح کی افواہیں پھیلا رہے ہیں،کابینہ ڈویژن کا ایک جعلی خط پھیلایا گیا ہے جس میں ملک کے ڈیفالٹ کے خطرے کا ذکر کرتے ہوئے مختلف اقدامات اپنانے کی ہدائت کی گئی ، اس شر کے رد کے لئے وزیر خزانہ کو فوری منظر عام پر آنا پڑ اور انہوں نے اس خط کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ڈیفالٹ ہونے کا کوئی چانس نہیں ۔ ثابت کر سکتا ہوں کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، یہ ماضی کا پاکستان نہیں، کیوں ڈیفالٹ کر جائے گا؟ پاکستان اسٹاک ایکسچینچ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مشکل حالات ضرور ہیں لیکن پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہیں مگر ڈیفالٹ کا خطرہ بالکل نہیں، یہ ملک رہے گا، ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مؤقف اختیار کیا کہ لوگوں کو خوف میں مبتلا کر دیا گیا ہے جس کے بعد کوئی ڈالر تو کوئی سونا خرید رہا ہے، ہمیں اپنے ملک کو اس کیفیت سے نکالنا ہے، سنگین مسائل ہیں لیکن ہمیں ان کا حل نکالنا ہے، پاکستان کے ڈیفالٹ کا رونا رونے والے کس کے لیے کام کر رہے ہیں؟  پیرس کلب نہیں جائیں گے اوربانڈ ادائیگی کی افواہیں بھی چلائی گئیں لیکن سچ  ثابت ہوا اور ادائیگی کر دی گئی، ہم نے معیشت ٹھیک کرنے کی ذمے داری لے رکھی ہے، کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنانا،پاکستان کی معیشت ٹھیک کریں گے۔
دریں اثنا پی ٹی آئی کے رکن سینٹ فیصل واوڈانے سپریم کورٹ میں کرائی جانے والی یقین دہانی کے مطابق سینٹ کی نشست سے استعفیٰ دے دیا ہے ،اسی نشست پر نثار کھوڑو پہلے رکن بن چکے تھے تاہم بعد ازاں  عدلیہ نے فیصل ووڈا کو بحال کیا تو نثار کھوڑو کو ڈی نوٹیفائی کرنا پڑا تھا ،تاہم فیصل وواڈا کو نشست سے ہونے کی ہدائت بھی کی گئی تھی ،اب ایک بار پھر سندھ سے ایک نشست خالی ہو گئی ہے۔ جس پر ضمنی الیکشن کرانا پڑے گا۔امکان یہی ہے کہ اس پر دوبارہ نثار کھوڑو کو ہی پی پی پی ٹکٹ دے گی ،پاکستان کیلئے سیلاب زدگان کی مدد کے وعدے لینے کے لئے ڈونرز کانفرنس9جنوری کو ہو گی،اس کی تمام م تیاری مکمل کر لی گئی ہے ،بحالی کے کام کے لئے15ارب ڈالر کی ضرورت ہے ،حکومت کو توقع ہے کہ اس نے عالمی ڈونرز کے سامنے  جو دستاویز کی شکل میںاچھا کیس تیار کر کے پیش کیا ہے اور وہ ضروری فنڈز کے حصول میں کامیاب ہو جاے گی،ڈونرز کانفرنس میں مالی امداد کے حصول اور دوست ممالک کے پیکجز آنے کے بعد آئندہ ایک دو ماہ کے بعد ملک کی مالی پوزیشن بہتر ہونا شروع ہو  جائے گی اور ڈالر پر دباؤ میں بھی کمی آئے گی۔

ای پیپر دی نیشن