کہا جاتا ہے ہرعروج کو زوال ہے ۔لیکن یہ شاید پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ اسے عروج تو ملا ہی نہیں لیکن ہر دوسرے تیسرے سال بعد زوال پذیر کی انتہاپر آ کھڑا ہوتا ہے ۔ہمارا ملک 75 سالوںمیں کبھی بھی سیاسی ،معاشی،معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے عروج تک نہیں پہنچ پایا۔ہر وقت کسی نہ کسی بحران میں مبتلا رہا کسی ملک کی ریڑھ کی ہڈی جیسے معیشت کہتے ہیں کبھی اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہوئی بلکہ قرضوں کی بےساکھیوں کے سہارے کھڑی رہی۔ سیاست ہمیشہ الزامات کی زد میں رہی۔معاشرتی طور پر عوام میں یہ شعور آیا ہی نہیں کہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں پر آواز اُٹھائے ۔ آخر میں اخلاقی اقدار ہم عوام اچھے بُرے ،جائز ناجائزکی تمیز کو فراموش کئے بیٹھے ہےں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرپشن کی دلدل میں دھنستا چلا گیا آج ہم کرپشن کی عروج کی انتہا پر کھڑے ہو کرملک کے قومی وقار کو زوال کی پستی میں جاتا دیکھ رہے ہیں مگر سبق نہ سیکھنے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں۔
آج صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ سائفر ،رجیم چینج، آڈیو لیکس ، ویڈیو لیکس ، غدار ، دہشت گر د ، توشہ خانہ،تعیناتی اور چور آجکل اِن الفاظ کاپاکستانی سیاست میںشور ہر طرف سنائی دے رہا ہے۔ پاکستان کی سیاست اب اُس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ غصہ، انتقام اور نفرت کی شدت ہمارے ملک کے سیاسی نظام میں آ جائے گی اور عدمِ برداشت میں اِس حد تک اضافہ ہو جائے گا کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ سیاست دانوں کی اِن لڑائیوں میں عوام پیس کر رہ گئی ہے۔ ہر طرف الزامات کی بوچھاڑ زور و شور سے جاری ہے۔اب تو صورتِ حال یہ ہو چلی ہے کہ ملک کے طول و ارض میں مہنگائی ، افراتفری،بد امنی، لوٹ مار ، غیر یقینی صورت حال اختیار کر چکی ہے کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کیامقاصد لےکر ہمارے سیاستدان حکومت سنبھالتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں کے بند کمروں میں عوام کے مسائل ،مشکلات اِنکی نظر وںسے اُجھل ہو جاتے ہیں جو بھی حکمرانی کےلئے آتا ہے اُن میں سے عوام کےلئے کون کیا سوچتا ہے ۔ تو اِس کا جواب یہی ہے کہ آنے والا ہر حکمران صرف گا، گی، گے کا راگ الاپتے ہوئے اپنی ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، یہاں کیونکہ ملک اور عوام کسی حکمران کی ترجیح نہیں ہوتے اورکسی کو یہ پرواہ نہیں کہ عوام کے مفادات اور اُن کی ترجیحات کیا ہےں۔اب پاکستان کی صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کرپشن اورقومی خزانوں پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے کہ ہر طرف مہنگائی ، بجلی کی لوڈشیڈنگ جیسے مسائل نے سر اُٹھانا شروع کردیا۔ صرف یہی نہیں لوٹ مار کا جو بازار گرم ہوا کہ سڑکیں ، گلیاں یہاں تک کے گھر تک محفوظ نہیں رہے ۔ پاکستان میں مہنگائی اور عوامی مسائل میں اضافہ کرناہر حکومت کا پسندیدہ عمل رہا ہے ۔ ہر حکومت کے آنے کے بعد عوام کےلئے ریلیف صرف خواب ہی رہاہے کیونکہ ہر جانے والی حکومت پر نا اہلی کا الزام رہتا ہے جبکہ آنے والی حکومت کی حکمتِ عملی بھی تقریباً وہی رہتی ہے جو پچھلی حکومت عوام کے ساتھ کر گئی ہوتی ہے۔
ہمارے حکمران ہوں یا سیاستدان اِن کےلئے عوام کی اہمیت صرف ووٹ کے حصول تک محدود ہے ۔پہلے دو اور اب تین سیاسی جماعتیں حکمرانی کی دوڑ کا حصہ ہیں اور باقی سیاسی جماعتیں ہر آنیوالی حکومت میں اتحادی کے طور پر اقتدار کے مزے لُوٹتی رہی ہیں یہ جماعتیں کبھی اقتدار سے باہر نہیں رہتی ہیں بلکہ اقتدار میں رہتے ہوئے اپنی جیبوں کو گرم رکھتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی حکمرانی کی فکر ہے کوئی جماعت بھی کھول کر عوام کے حقو ق اور مسائل پر بات نہیں کرتی۔ پارلیمنٹ میں عوام کے حقوق اور قوانین کےلئے کوئی مو¿ثر قانون سازی ہمیشہ تاخیر کا شکاررہے ہےں یا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ پارلیمنٹنیرز کے فائدے کے تمام قوانین چٹکیوں میں منظور ہو کر نافذالعمل ہو جاتے ہیں۔ یہاں قوانین کے بھی دو معیار ہیں اعلیٰ طبقے کیلئے قانون اور قانون کے تقاضے الگ ہیں تو دوسری طرف عوام کےلئے الگ جبکہ عوام کے فائدے کے قوانین کا نفاذ کے نوٹیفیکیشن کے انتظار میں ہی رہتے ہےں۔ پاکستانی عوام کو مہنگائی ہی نہیں بلکہ سرِ راہ لوٹ مار،لاقانونیت ، انصاف کے حصول میں دُشواریاں، پولیس گردی اور مافیاز جو اِس ملک کے اصل طاقت ور ترین طبقہ ہے جس نے یہاں سارے سسٹم کو جکڑا ہوا ہے یعنی قانون کے ایوانوں سے پارلیمنٹ تک، صحت کے مسیحاو¿ں سے لےکر فارما سوٹیکل کمپنیوں تک، سڑک پرلوٹ مار کرتے ڈاکووں سے لےکر تھانہ کچہری تک،بازار میں بیٹھے تاجر سے لےکرمارکیٹ میںبھتہ خور مافیا کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ مضبوط ہے ۔یہاں امیر ہونے کیلئے ہر ناجائز اور شاٹ کٹ راستہ اپنانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔