صوبہ پنجاب ضلع اٹک کی جغرافیائی حدود میںکالا چٹا پہاڑی سلسلے کی سات سرنگوں کی تعمیر عجوبہ سے کم نہیں . یہ ریلوے انجینئروں کی فنی مہارت کا اعلیٰ نمونہ ہیں مذکورہ سرنگوں کی شہرت کی سب سے اہم وجہ یہ ھے کہ وہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں اور سات کے عددی شمار کی وجہ سے انہیں سیون سسٹرز ٹلز کہا جاتا ھے، یہ جڑواں سرنگیں ریلوے کی شاندار عظمت کی عکاس ہونے کے علاوہ ملک و قوم کا تاریخی ورثہ بھی ہیں، ریلوے اسٹیشن اٹک سے بذریعہ ٹرین برانچ لائن جنڈ کیلیئے سفر کیا جائے تو تقریباً سات کلو میٹر کے بعد”کنجور ریلوے اسٹیشن “ آتا ھے اور اس سے اگلا ”جھلار ریلوے اسٹیشن“ ھے ان دونوں کا درمیانی فاصلہ دس کلو میٹر ھے ان اسٹیشنوں کے مابین” کالا چٹا “ نامی پہاڑی سلسلہ ھے جس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں مذکورہ ریلوے سرنگیں انہی پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں یہ سات سرنگیں 5 کلو میٹر کے درمیانی فاصلے پر پھیلی ہوئی ہیں جس میں سرنگوں کی مجموعی لمبائی 9046 فٹ یا تقریباً 3 کلو میٹر ھے دنیا میں کہیں بھی اتنے کم فاصلے پر ریلوے کی مسلسل سات سرنگوں کا وجود نہیں ملتا اور شاید یہی وجہ مذکورہ سرنگوں کی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اندراج کا باعث بنی یہ ٹنل بالترتیب 892 فٹ، 1180 فٹ، 855 فٹ، 1776فٹ، 1131فٹ، 1616فٹ لمبے ہیں جبکہ ساتویں سرنگ کی لمبائی 1596 فٹ ھے ان کی تعمیر کا آغاز 1896 میں ہوا اور یہ 1898ئ میں مکمل ہوئیں، دلچسپ اور عجیب بات یہ ھے کہ تیسری اور ساتویں سرنگ میں پانی کے قدرتی چشمے مسلسل رواں ہیں اور پانی کنارے کے ساتھ بہتا ہوا باہر کی جانب آتا ھے پھر ریل کی پٹڑی کے ساتھ بنی ہوئی نالی میں داخل ہو کر نیچے ڈھلوان کی جانب جا نکلتا ھے جہاں چرواھے اور مویشی اپنی پیاس بجھاتے نظر آتے ہیں-
یوں تو یہ سرنگیں ایک خط مستقیم میں ہیں تاہم چوتھی سرنگ سول انجینئرنگ کا کمال لگتی ھے یہ واحد سرنگ ھے جو سیدھی ہونے کے بجائے گھومتی ہوئی بنائی گئی ھے 1897 میں پہاڑ کے دونوں جانب سے کھدائی کا آغاز کیا گیا اور پھر مہارت سے دونوں سرے بیچ میں آکر ایک دوسرے سے جوڑ دیئے گئے اس بل کھاتی سرنگ میں اگر پیدل چلیں تو اگلا دھانہ نظر نہ آنے کی وجہ سے یوں لگتا ہے جیسے آگے بڑھنے کی بجائے ایک ہی جگہ کھڑے ہوا میں پاﺅں چلا رہے ہیں جب ریلوے کے مزدور سرنگ کے اندر مرمت کا کام انجام دیتے ہیں تو وہ سورج کی روشنی کو بڑے بڑے آئینوں کے ذریعے منعکس کرکے سرنگ کے اندر پھینکتے ہیں جس سے اندرونی ماحول روشن ہو جاتا ھے، ریل کی پٹڑی کے بیچ میں کھڑے ہو کر اگر شمال کی جانب نظر دوڑائیں تو تین سرنگیں ایک سیدھ میں نظر آتی ہیں اور ان کے روشن دھانے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ھے جیسے ایک دیو ہیکل آنکھ پلک جھپکے بغیر مسلسل دیکھے جارہی ھے ایسے میں ٹرین کا نظارہ بڑا دل نشین ہوتا ھے وہ کالی پتلی میں داخل ہوتے ہی کہیں گم ہو جاتی ہے اور پھر دوسرے دھانے پر دوبارہ نظر آنے لگتی ہے یہ ایک جادوئی منظر محسوس ہوتا ھے، اس علاقے میں نایاب نسل کی جنگلی تتلیوں کی بھی بہتات ھے ان کے سفیدی مائل پروں پر کالے دھبے شاید کالے چٹے پہاڑ کی نمائندگی کرتے ہیں ہزاروں کی تعداد یہ تتلیاں قطار اندر قطار ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ اڑتی ہوئی جب سرنگ میں سے گزرتی ہیں تو ان کے اڑان کی شانِ بے نیازی اس بات کی غماز ہوتی ہے جیسے یہ سرنگیں ان کی گزر گاہ کے طور پر تعمیر کی گئی ہیں فضا میں اڑتی ہوئی یہ تتلیاں ایسی ہوائی ٹرین کا نظارہ پیش کرتی ہیں جو سبک خرام ہونے کے باوجود کسی صوتی آلودگی کا باعث نہیں بنتی اس طرح جنگل کی دنیا کا فطرتی حسن ایک ابدی سکون کی کیفیت سے ہمیشہ سرشار رہتا ھے، پھلاہی اور جنگلی زیتون کے ان جنگلات میں جنگلی حیات بھی خوب پھل پھول رھے ہیں ہرن، اڑیال، گیدڑ، بھیڑیئے، لومڑ، سور وغیرہ کثیر تعداد میں موجود ہیں چار سو تیتر، چکور اور فاختاﺅں کی صدائیں گونجتی ہیں۔سائبریا سے آنے والے مہاجر پرندوں میں Wood Peigon ،ہریل طوطے، تلیر، مرغابی کونجیں اور بگلوں کی قطاریں نظر آتی ہیں، پہلی اور دوسری سرنگ کے درمیان بچھی ہوئی ریل کی پٹڑی پر شکردرہ پل تعمیر کیا گیا ہے جس کے نیچے سے اطراف کے پہاڑوں سے ندی نالوں کی صورت میں بہہ کر آنے والا پانی گزرتا ہے شکردرہ نامی گاﺅں کے قریب ندی کی گزرگاہ پر بندھ باندھ کر پانی کو روک لیا گیا اس طرح ڈیم کے وجود میں آنے سے قرب و جوار کی زمینوں کو سیراب کیا جانے لگا ڈیم کی تعمیر سے اب پانی کی سطح ریلوے پل کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے شکردرہ پل سے بھی پہلے نندنا براج آتا ہے جو کہ کنجور کے ریلوے اسٹیشن سے محض آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے شکردرہ پل کی طرز تعمیر کے برعکس یہاں ستونوں کی تعمیر میں تراشے ہوئے پتھروں کے بجائے اینٹوں کا استعمال کیا گیا ہے سطح زمین سے گزرتی بلندی لگ بھگ 100 فٹ کے قریب اگر نیچے کھڑے ہو کر پل سے گزرتی ہوئی ٹرین کا نظارہ کیا جائے تو دیو ہیکل ڈبے کھلونوں کی مانند ایک دوسرے کے پیچھے لپکتے نظر آتے ہیں جبکہ چلتی ٹرین کی کھڑکی سے نیچے جھانکنے والے مسافر اکثر اپنی آنکھیں بند کرکے سر کو کچھوے کی مانند اندر کھینچ لیتے ہیں کہ مبادہ کششِ ثقل انہیں پل سے نیچے نہ دھکیل دے پل کے نیچے سے گزرنے والی صاف و شفاف پانی کی ندی ”نندنا“ کے نام سے جانی جاتی ہے ندی پل کے نیچے سے ایک چکر کاٹ کر گزرتی ہے اور بہاﺅ کی تیزی کی وجہ سے پانی کی دلگراز تانیں واضح طور پر س±ر بکھیرتی سنائی دیتی ہیں، ریلوے کی سات سرنگوں کی خوبصورت مالا کے دونوں سروں کو کنجور اور جھلار کے قدیم اسٹیشنوں نے اپنے گرد باندھ رکھا ہے مشرقی سرے پر کنجور کا ریلوے اسٹیشن وکٹورین عہد کی یاد دلاتا ہے لق و دق میدان میں یہ پلیٹ فارم بازو پھیلائے آنے جانے والے مسافروں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے کنجور کے نام کی وجہ تسمیہ چونے کی نرم قسم کا پتھر ہے جو اس علاقے میں وافر مقدار میں موجود ہے لیکن حیرت ہے کہ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر میں کنجور کے پتھر کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس کی مناسبت سے محض اسٹیشن کا نام کنجور رکھنے پر ہی اکتفا کیا گیا شاید یہ بھی کچھ اس طرح کا اتفاق ہے جیسے اسکاٹ لینڈ سے منسوب اسکاچ وسکی کا وہاں سے کوئی تعلق نہیں ہے، سرنگوں کے مغربی اختتامی سرے پر جھلار کا خوبصورت اسٹیشن ہے ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور جھلار نامی گاﺅں نے یہ نام اسٹیشن کو ودیعت کیا ہے تیس چالیس گھروں پر مشتمل یہ گاﺅں اب بے آباد ہو چکا ہے کیونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر گئے ہیں تاہم اکا دکا ساربان جنگل میں سے چوری چھپے لکڑیاں کاٹتے نظر آجاتے ہیں،. ”سرنگوں کے اس پار جھلار کا ریلوے اسٹیشن اپنے ازل پر بیٹھا اونگھ رہا تھا ’ 1880 اپنے وجود کی تاریخ کی تختی عمارت نے اپنے گلے میں لٹکا رکھی تھی اس کی عمر کے گزرے سال آس پاس بکھرے پڑے تھے سامنے پہاڑی ٹیلے پر رکھی پانی کی ٹینکی رنگوں کے سینکڑوں لیپ اوڑھ کر سوئی ہوئی تھی ندی کنارے قطار میں بیٹھے ریلوے کے کوارٹر ایک ایک کرکے اپنی گزری عمر کی کنکریاں ندی میں پھینک رہے تھے بڑے بڑے اسٹیل گارڈ والا ریل کا پل سات سرنگیں، ہر ایک نے اپنی عمر کا حساب اپنے ماتھے پر لکھ رکھا تھا“۔
”اس برانچ لائن پر شمال اور جنوب سے آنے والی گاڑیاں اس پہاڑی ریلوے اسٹیشن پر چند لمحوں کےلیے رکتیں اور سیٹیاں بجاتی ہوئی سرنگوں کے اس پار چلی جاتیں انجن کا دھواں دیر تک ٹنل سے رستا رہتا“۔جھلار کی راتوں کا طلسم سر چڑھ کر بولتا ہے فضا مکمل طور پر آلودگی سے پاک ہے دور دور تک ستاروں کے جھرمٹ اور کہکشائیں واضح دکھائی دیتی ہیں چاندنی راتوں کے علاوہ بھی ستاروں کی جھلملاہٹ سے پگڈنڈیاں اور وادیاں دمکتی نظر آتی ہیں آسمان کی وسعتوں میں نظر دوڑائیں تو یوں لگتا ہے جیسے رات کے چوکیدار لالٹین اٹھائے گشت کررہے ہیں اور ایسے میں ا±لوں کی آوازیں بھی”جاگتے رہنا“ کا تاثر پیش کرتی ہیں، کالے چٹے پہاڑ کی یہ عجوبہ سرنگیں سات جڑواں بہنوں کی مانند ہیں جنہوں نے وادی کے ابدی حسن کو چار چاند لگا رکھے ہیں یہاں جنگلی حیات ہمیشہ اپنے جوبن پر رہی ہے پہاڑوں کے بیچوں بیچ ندی بہتی ہے