بھارت دھائیوں تک سیکولر چہرہ رکھنے والے ملک ہونے کا دعویدار رہا ہے شاید یہ دعویٰ بی جے پی کی لگاتار دو مرتبہ حکومت بننے سے قبل تک کسی حد تک قابل قبول بھی تھا لیکن گزشتہ کئی برسوں سے بھارت انتہا پسند تشخص رکھنے والا ملک بن چکا ہے جہاں عدم برداشت اور عدم مساوات کا رویہ اس کی شریانوں میں سرایت کر چکا ہے کوئی مذہبی یا روایتی تہوار ہو، سیاسی ثقافتی سرگرمی یا فنون لطیفہ کا کوئی فن پارہ ہو ہر جگہ انتہا پسند حکمران جماعت مذہب کو گھسیٹ لاتی ہے۔ انڈین فلم انڈسٹری بھی ایسے ہی تنازعات سے دوچار رہتی ہے آج کل بھی بھارتی میڈیا پہ ایسا ہی ایک تنازعہ ںچھایا ہوا ہے۔کوئی بھی انڈین نیوز یا حالات حاضرہ کی چینل لگائیں تو ایک ہی موضوع آپ کو ملے گا پوری میڈیا انڈسٹری شاہ رخ خان کی فلم پٹھان کے گانے بےشرم رنگ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے یہ گانا ریلیز ہوتے ہی ہر طرف گویا ایک آگ سی لگ گئی عدم برداشت اور دلآزاری کا ایک طوفان بپائ ہو گیا، سیاسی جلسے ہوں یا نیوز سٹوڈیوز، حالات حاضرہ کے پروگرام سوشل میڈیا ہو یا پریس ہر سو ایک ہی چرچہ تھا سٹوڈیوز میں موجود لوگ یا آن لائن ڈیبیٹ میں شامل لوگ انتہائی غصے میں منہہ سے جھاگ نکالتے تند و تیز زبانی نشتروں سے ایک دوسرے پہ حملہ آور سب ایک ساتھ بول رہے ہوتے ہیں ایک دوسرے کی بات سننے یا سمجھنے کو تیار ہی نہیں بات ایک فلم کے ایک گانے کے ایک بول ایک ہیروئین کے مختصر ترین کپڑوں کے ایک رنگ سے شروع ہو کر دین مذہب روایات تک پہنچ چکی ہے ہر کسی کا ہاتھ دوسرے کے گریبان پہ ہے حسب سابق اس فلم کو ہندو مذہب کے ٹھیکیداروں کی جانب سے مسلمانوں پر ہندوو¿ں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہے۔ یہ سارا تنازعہ اس فلم کی ریلیز سے قبل ریلیز کئے گئے ایک گانے سے شروع ہوا جس میں ہیروئین (دپیکا) عریاں رقص کرتی دکھائی دیں لیکن اب بھارت میں اس حرکت کو زیادہ برا نہیں سمجھا جاتا اصل تنازعہ ہیروئین کے لباس کے رنگ کو قرار دیا جا رہا ہے ہندو مذہبی رہنماو¿ں کے مطابق اس گانے کی ویڈیو میں ہیروئین زعفرانی یا نارنجی(safron) رنگ کے لباس میں ملبوس ہے اور گانے کے بول میں 'بےشرم رنگ' کے الفاظ شامل ہیں بظاہر اس رنگ کو بے شرم رنگ کہا جا رہا ہے۔ ویسے یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا ہر مذہب کے کچھ مخصوص رنگ ہوتے ہیں جن کی کچھ نہ کچھ تاریخ اور تقدس بھی ہے نارنجی یا زعفرانی رنگ ہندو مذہب میں بہت تقدس کا حامل سمجھا جاتا ہے ان کے ہاں یہ رنگ یہ رنگ ہمت حوصلے قربانی اور آزادی کی جستجو کا نشان ہے اس کے علاو¿ہ یہ سورج کے طلوع و غروب اور آگ کی علامت بھی ہے آگ اور سورج پہ بھی ہندومت کی ایک پوری متھ کھڑی ہے اسی وجہ سے یہ رنگ ان کے ترنگے (جھنڈے) میں بھی شامل ہے اکثر ہندو پنڈت یوگی اور مذہبی کارکنان اس رنگ کی پگڑیاں پورا لباس یا دوپٹے اوڑھے نظر آتے ہیں گویا اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ نارنجی یا زعفرانی رنگ واقعی ہندوو¿ں کے ہاں تقدس کا حامل ہے یہاں تک ان کا مطالبہ غلط نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس غلطی کو بنیاد بنا کر مسلمانوں اور سیکولرز کو بےیک وقت رگیدا جا رہا ہے۔مسلمانوں پہ تنقید کی اکلوتی وجہ ہیرو کا مسلمان ہونا ہے الزام یہ ہے کہ ہندو مذہب کے خلاف بننے والی تمام تمام فلموں کے ہیرو خان ہی ہوتے ہیں اس ضمن پی کے کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ اس الزام کی نفی کیلیے موقف پیش کیا گیا ہے کہ یہ گیت کمار نے لکھا ہے اسے شلپاء راو¿ اور وشال شیکھر نے گایا ہے اس گیت کے ڈائریکٹر سدارت آنند ہیں جبکہ پکچرائز دپیکا پہ ہوا ہے گویا شاہ رخ خان کے علاو¿ہ تمام لوگ ہندو ہیں اس کے باوجود مذہبی جذبات مجروع کرنے کا الزام بیچارے مسلمانوں پہ ہے ویسے موصوف خود بھی برائے نام ہی مسلمان ہیں جس کا اظہار وہ اکثر کرتے رہتے ہیں۔ بات اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ایودھیا کے پرم اچاریہ شاہ رخ کو زندہ جلانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں اس کے علاو¿ہ ممبئی کے ایک پولیس اسٹیشن میں فلم کے ڈائریکٹر پروڈیوسر اور اداکار کے خلاف فوجداری مقدمہ قائم کر نے کی درخواست بھی دائر کی جا چکی ہے۔ یہ معاملہ اب فقط ایک فلم یا گانے تک محدود نہیں رہ گیا بلکہ سیاسی مذہبی اور لسانی گرما گرمی کا محرک بن چکا ہے بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنما دن رات دھڑا دھڑ مختلف چینلز پہ اس معاملے میں ایک دوسرے سے الجھتے نظر آتے ہیں کانگریسی رہنمااور چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بھاگل بھی اس معاملے بی جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں اور اس پر مذہبی انتہا پسندی کا الزام عائد کر چکے ہیں اس سے قبل سئنیر سیاستدان ممتا بنرجی بھی بی جے پی رہنماو¿ں سے شدید لفظی جنگ کر چکی ہیں۔ مدھیا پردیش کے ہوم منسٹر سمیت تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما اس معاملے پر رائے زنی کرتے نظر آتے ہیں اس فلم کے بائیکاٹ کا ٹرینڈ بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر نظر آ رہا ہے ہے لیکن اتنے تنازعات کے باوجود یہ متنازع گیت سو ملین سے زائد ویو حاصل کر چکا ہے لگتا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پہ تنازعات اس فلم کیلیے کبڑے کو لات ثابت ہونے والے ہیں۔ بھارت جو مستقبل کی سپر پاور اور معاشی حب بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اس قدر متعصب نااہل اور تنگ نظر ہے کہ ایک معمولی سی فلم کا تنازع قومی افق پہ چھا چکا ہے اس کا سد باب نہیں ہو پا رہا تو وہ بین الاقوامی فورم پہ کیا کردار ادا کر سکتا ہے یقیناً اس خواب کی تعبیر میں رکاوٹ ان کا معاشرتی پس منظر ہے یہ معاشرہ عدم برداشت اور عدم مساوات جیسی الائشات سے لتھڑ چکا ہے بھارت کو جلد از جلد اس معاشرتی عدم برداشت اور عدم مساوات سے نجات حاصل کرنا ہوگی تاکہ وہ نہ صرف خود ترقی و ترویج کی منازل جلد طے کرے بلکہ اپنے ہمسایہ ممالک کے لیے بھی معاون ثابت ہو سکے۔
بھارت کا بے شرم سیکولر چہرہ
Dec 29, 2022