مولانا مجیب الرحمن انقلابی
عالم اسلام کی عظیم شخصیت اور خطابت کے بے تاج بادشاہ حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی رحمۃ اللہ علیہ وہ خوش قسمت شخصیت ہیں جو حق بات کہنے بیان کرنے ، دوسروں کے دل و دماغ میں اتارنے کا فن اور سلیقہ جانتے تھے۔آپ کو بر صغیر میں ’’ترجمانِ دیوبند‘‘ کی حیثیت حاصل تھی مولانا ضیاء القاسمی خطیب ہی نہیں بلکہ ’’خطیب گر‘‘ تھے۔ آپ نے اپنے چالیس سالہ دورِ خطابت میں لاکھوں انسانوں کو شرک و بدعت کے اندھیروں سے نکال کر ان کے سینوں میں توحید کی شمعیں روشن کیں، آپ کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے،بچپن سے لے کر جوانی تک اور جوانی سے وفات تک آپ کی زندگی ’’درسِ توحید‘‘ اور مختلف فتنوں کے تعاقب میں گزری، آپ نے مختلف اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ قاسم العلوم ملتان سے مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے امتیازی حیثیت کے ساتھ ’’دورئہ حدیث‘‘ کرتے ہوئے سندِ فراغت حاصل کی اور اس کے بعد شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان سے درسِ توحید لیتے ہوئے دورئہ تفسیر کیا اور پھر آپ ہندوستان تشریف لے جاتے ہیںجہاں آپ دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے ’’دستِ حق‘‘ پر چاروں سلسلوں میں بیعت ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ دورانِ تعلیم ہی آپ اپنے استاذ و مربی مولانا لطف اللہ رشیدی کی زیرِ تربیت خطابت کا آغاز اور نام پیدا کرچکے تھے۔۔۔۔۔۔۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ ؒ فیصل آباد تشریف لائے اور اپنے مخصوص انداز میں لوگوں کو درسِ توحید دینے لگے۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے دور دور سے شرک و بدعت اور سم و رواج کے مریض آکر شفایاب ہونے گے۔۔۔۔۔۔آپ لاکھوں کے جلسہ میں سحر انگیز خطابت کے ذریعہ سامعین کو مبہوت کر دیتے۔ آپ کی تقریر سے عشقِ رسالتؐ ، عقیدئہ ختم نبوت وناموسِ صحابہؓ کے تحفظ اور ازواج مطہراتؓ کی عظمت و عقیدت، شرک و بدعت سے نفرت اور توحید و سنت کی اہمیت و ضرورت کا درس ملتا، آپ کو علوم دینیہ پر عبور کے ساتھ ساتھ اُردو، عربی فارسی اور پنجابی زبان کے سینکڑوں اشعار ازبر تھے، جنہیں پڑھ کر آپ سامعین کو حیرت میں ڈال دیتے۔
فتنہ قادیانیت ، منکرینِ حدیث، گستاخانِ اصحابِ رسولؐسمیت ہر باطل قوت کے خلاف سربکف ہو کر پوری جرأت کے ساتھ میدانِ عمل میں رہے اور کئی بار جیل کاٹی۔ آپ تین بار اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر رہے ، قیامِ امن، اتحاد بین المسلمین کے فروغ ، ملی یکجہتی کونسل کی تشکیل اور فرقہ واریت کے خاتمہ میں بھی آپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ نے ’’خطباتِ قاسمی‘‘ سمیت درجنوں کتب تصنیف کیں۔آپ نے امریکہ ، برطانیہ ، ناروے، فرانس ، ترکی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر سمیت دیگر ممالک کے دورے کر کے دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا، برطانیہ میں سب سے پہلے ’’انٹر نیشنل ختم نبوت کانفرنس‘‘ کا انعقاد و آغاز کرنے اور کینیڈا کے ریڈیو سے ختم نبوت کے عنوان پر تقریر و انٹر ویو کے علاوہ آپ کو کئی مرتبہ حج و عمرہ کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔ آخری عمر میں ناموسِ صحابہؓ کے تحفظ کے لئے آپ نے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا اور پھرآپ نے ولی کامل، پیر طریقت حضرت مولانا سید نفیس الحسینی شاہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ خوش اخلاق ، خوش مزاج، باغ و بہاد طبیعت کے مالک اور زندہ دلی و خوش مزاجی کے حسین مرقع تھے جس کی وجہ سے آپ ہر مجلس میں مرکز نگاہ ہوتے، مذہبی و سیاسی حلقوں سمیت تمام مسالک میں آپ قابلِ احترام تھے، آپ نے فیصل آباد میں علمی ادارہ جامعہ قاسمیہ قائم کر کے جہاں علوم دینیہ کی تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھا وہاں آپ نے اس ادارہ میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے مختلف باطل قوتوں کے خلاف اسلام کی حقانیت پر کورس کرانے کے علاوہ ہزاروں علماء کوفنِ خطابت کی تعلیم دے کر ان کو خطابت کے میدان میں لاکھڑا کیا،۔
مولانا محمد ضیاء القاسمی آخری دنوں میں شوگر، گردے اور جگر کے عارضہ میں مبتلا رہے اورآخر کار 29 دسمبر 2000ء کی سہ پہرانہی ظاہری بیماریوں کی وجہ سے 63 سال مسنون عمر میںکلمہ شہادت پڑھتے ہوئے دارِ فانی کو چھوڑ کر پنے رب کے حضور پیش ہو گئے ۔ آپ نے لواحقین میںاولاد صالحہ ،جامعہ قاسمیہ فیصل آباد،دینی کتب اور ہزاروں شاگرد رشید چھوڑ ے۔
؎ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را