باز گشت …طارق محمود مرزا
tariqmmirza@hotmail.com
سات برس قبل میری محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے اسلام آباد میں ان کے گھر میں ملاقات ہوئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو میں ادب، معاشرت، سیاست سمیت مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔ ہر موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی مدبرانہ دسترس تھی۔ تاہم ڈاکٹر صاحب کا ادبی ذوق عنایت عمدہ تھا اور انہیں کلاسیکی شاعری سے بہت لگاؤ تھا۔ ان کا ذوقِ سخن تھا کہ اپنے پسندیدہ شعرا کا کلام منتخب کر کے'' نوادرات ''کے نام سے شائع کیا۔ یہ کتاب ازرائے عنایت انہوں نے مجھے بھی عطا کی۔آٹوگراف والے صفحے پر انھوں نے جو اشعار لکھے انھیں پڑھ کر میں ہمیشہ د کھی ہو جاتا ہوں۔انھوں نے انتہائی خوش خطی سے رقم فرمایا۔
اس ملک بے مثال میں ایک مجھ کو چھوڑ کر
ہر شخص بے مثال ہے اور باکمال ہے
گزر تو خیر گئی تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری
ان اشعار سے ڈاکٹر صاحب کے اندر چھپا کرب اور تلخی نمایاں ہے۔ یہ تلخی ایک دن میں نہیں آئی بلکہ ان کے ساتھ پے در پے ایسے واقعات پیش آئے جو کسی بھی حساس شخص کو دکھی کرنے کے لیے کافی تھے۔ وہ اتنے محب وطن تھے کہ اکہتر میں سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے اور ان کی تذلیل کا منظر تمام عمر فراموش نہ کر سکے۔ اس لیے جب موقع ملا ملک کے دفاع کے لیے سب کچھ چھوڑ چھا ڑ کر آگئے۔ایک شخص جو انتہائی کامیاب سائنسدان ہو اور ہالینڈ جیسے ملک میں بہترین جاب کر رہا ہو، وہ اپنا کیریئر، اپنا گھر بار اور محفوظ مستقبل ترک کر کے وطن کی خدمت کرنے اپنے ملک لوٹ آئے۔ا سے قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہو۔ اپنے لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی عدالتوں میں جا کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے مقدمہ لڑنا پڑے۔ ایسے شخص کو کتنے چیلنج درپیش ہوں گے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وطن عزیز کو ایٹمی طاقت بنانے کی عظیم ذمہ داری اس کے سر پر ہو۔ وطن اور باہر کہیں بھی تعاون کرنے والا کوئی نہ ہو بلکہ ہر طرف ناموافق حالات ہوں۔ ضروری مواد اور پرزہ جات کی بندوبست بھی خود ہی کرنا پڑے۔ہم وطن سائنس دانوں کی ٹیم منتخب کرنے اور انہیں وطن لوٹنے پر قائل کرنے سمیت کتنے بڑے بڑے امتحانات سے گزرنا پڑے۔ اس کے لیے کتنی محنت، ذہنی اور جسمانی مشقت سے گزرنا پڑا ہوگا۔اتنی قربانیاں دینے والے کے اندر ملک کی خدمت کا جذبہ کتنا گہرا ہوگا۔ بین الاقوامی دشمنوں سے جان کا خطرہ الگ تھا۔ان مشکلات کے باوجود یہ شخص نہ صرف عزم و حوصلے کے ساتھ اپنے مشن پر کاربندرہتا ہے بلکہ اپنی ٹیم کو بھی حوصلہ دیتا ہے۔ بدلتی حکومتوں اور حکمرانوں کو بھی اعتماد میں لیتا ہے۔اس عظیم جدو جہدکے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ شخص ایک شخص نہیں بلکہ ایک ادارہ،ایک فوج نظر آتی ہے جو اپنے مقصد کے لیے سیل رواں بناہے اور کسی رکاوٹ کو خاطر میں لاتا۔ جب تک کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو جاتا اور ملک کو ناقابل تسخیر ایٹمی طاقت میں نہیں بدل دیتا۔انھوں نے نہ صرف ملک کو ناقابل تسخیر بنایا بلکہ خود پر لگنے والے الزامات کا بین الاقوامی عدالتوں میں دلیرانہ مقابلہ کیا اور بالاخر خود کو بے گناہ ثابت کیا جو بالواسطہ پاکستان کی کامیابی تھی۔
ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کے بعد بھی ڈاکٹر قدیر خان ر?کے نہیں بلکہ اس کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط بنانے کا عمل جاری رکھا۔ اس کے ساتھ وطن عزیز کے دیگر اہم شعبوں جیسے توانائی اور تعلیم پر بھی ان کی نظر تھی۔ لہذا انھوں نے ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور سستی بجلی کے حصول کے لیے نہایت عرق ریزی سے مختلف منصوبے ترتیب دیے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے ان منصوبوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھااور دنیا بھر سے مہنگی بجلی خرید کر ملک کو مزید زیر بار کیا۔ان سودوں سے ان کے اپنے مفادات وابستہ تھے۔ اپنی جیبیں بھرنے کے لیے انھوں نے ڈاکٹر قدیر خان جیسے محب وطن شخص کی محنت ضائع کر دی۔ اس سے نہ صرف قوم و ملک کا بے تحاشہ نقصان ہوا بلکہ ڈاکٹر قدیر اور ان جیسے دیگر سر پھروں کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنی محنت کا ضائع ہونے کا بہت دکھ تھا۔اس سے زیادہ دکھ انہیں اپنے ہم وطنوں کی مشکلات کا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے وہ فائلیں مجھے دکھائیں جن میں ایسے منصوبوں کی فیزیبلٹی رپورٹ ہے جس پر متعدد سائنس دانوں اور ماہرین کی محنت شامل ہے۔انہوں نے ان سیاست دانوں کے نام بھی بتائے جن کی خدمت میں یہ فائلیں پیش کی گئی جس میں چودھری نثار، یوسف رضا گیلانی، مشاہد سید سمیت کئی سیاست دان شامل تھے۔ ملک میں تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے بھی انھوں نے بہترین ماہرین تعلیم کی مدد سے ایک منصوبہ مرتب کیا اور یہ منصوبہ کار پردازان حکومت کو پیش کیا۔مگر ڈاکٹر صاحب کے بقول یہ فائلیں شاید ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی گئیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کا دنیا میں کوئی معیار نہیں ہے اور نہ ان کی ڈگریوں کی کوئی قدرہے۔آسٹریلیا میں پاکستان کی گریجویشن کی ڈگری کو ایچ ایس سی کے برابر اور پوسٹ گریجویشن کو عام گریجویشن کے مساوی تسلیم کیا جاتا ہے اور وہ بھی صرف چند یونیورسٹیوں کی ڈگری کو۔ یوں پاکستانی طلباکو بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں داخلے اور بیرون ملک ملازمت حاصل کرنے میں سخت دقت پیش آتی ہے جس میں ان بیچاروں کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔ قصور تو خیر پوری پاکستانی عوام کا نہیں ہے جو پچھلے 75 برسوں سے روز و شب سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ پانی،بجلی گیس، پٹرول،چینی اور آٹا جیسی چیزوں کی نایابی اور گرانی اپنی جگہ جو ہر شہری کو متاثر کر رہی ہے۔مگر پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں انصاف نہیں ہے۔حقدار کو حق نہیں ملتا۔ مجرم کو وقت پہ سزا نہیں ملتی۔اس کی وجہ سے شہریوں کے جان و مال اور عزت کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس خوف میں لوگوں کی زندگی گزر رہی ہے۔ یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے۔اگر اس ملک میں انصاف اور جمہوریت ہوتی تو ڈاکٹر قدیر جیسے محب وطن شخص کے ساتھ یہ سلوک ہرگز نہ کیا جاتا۔انہیں یوں پوری دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کیا جاتا۔ بلکہ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں سر انکھوں پر بٹھایا جاتا۔ بڑے سے بڑا عہدہ پیش کیا جاتا۔ بلند ترین اعزاز سے نوازا جاتا۔جن قوموں کو اپنے محسن یاد نہیں رہتے اللہ تعالی ان پر احسان کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ سید نعیم الحامد نے صحیح لکھا ہے:
قدیر خان کے زمانے میں ہوتے گر اقبال
قصیدہ کہتے وہ اس مردِ جاوداں کے لیے