غضنفرعباس سید: دشت ِبے آب کا شجر

میرے تصورات میں کہیں ایک ایسا شہرموجود ہے جس کے باشندے سادہ لباس اور دانش جو ہیں،جہاں دردکی دولت عام ہے، فضامیں چاروں طرف سرسبزدرختوں کے جھنڈہیں،شہرکے درمیان سے ایک گنگناتی ہوئی نہرگزرتی ہے۔یہ شہر میرے بچپن کی ایک نصابی کہانی’سویاہوامحل‘سے مشابہ ہے،یہ وہ شہرہے جس کے چائے خانوں میں علم ودانش کی بحثوں میں بات بڑھتی تو لعن طعن کے اسلحے کی بجائے لغات اور فرہنگیں الماریوں سے نکل آتیں۔چوں کہ اہل نظر تازہ بستیاں آباد کرتے ہیں،یہ شہربھی جدید طرزپربسایاگیاہے۔یہاں کے شاعراورادیب بھی نئی طرزکے موجدہیں۔ان آفتاب ماہتاب شاعروں میں ایک سانولی رنگت اورخوش خط چہرے والا شاعربھی ہے جسے دوست غضنفرکہتے ہیں۔ادبی دنیا اسے غضنفرعباس سید(پ1965ء۔م 2018 ء)کے نام سے جانتی ہے۔آج بھی اس شہرکی بہت سی چیزیں و ہیں دھری ہیں،ہرشے اپنے جلال وجمال کے ساتھ اپنی جگہ پرموجود ہے لیکن بہت سی سنہری شباہتوں کے ساتھ اب غضنفرکاچہرہ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ غضنفرعباس سیداب کہیں دور (عدم آبادمیں) اپنی مرضی کی زندگی بسرکر رہاہے۔جہاں اس کے لیے کوئی دکھ بھری زندگی نہیں۔کیوں کہ دنیاوی زندگی میں اس نے اپنے حصے کے غم واندوہ پہلے ہی سے سہ لیے ہیں۔
ہمارا شاعر دوست شہرکے ایک پوش علاقے میں پیداہوا،اس کاتعلق شہرکے ایک معزز سادات گھرانے سے تھا۔اس نے بنیادی طورپر کامرس کی تعلیم حاصل کی۔اس دوران میں اسے ڈپٹی کمشنرآفس میں کلرکی ملی لیکن وہاں کی غلام گردشوں میں جس طرح روزانہ لوگوں کا ذہنی قتلام ہوتا ہے،یہ اس سے دیکھا نہ جاتا تھا۔اس نے تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری رکھا۔پرائیویٹ ایم اے اردو اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔وفات کے وقت وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آبادسے اقبالیات میں ایم فل کررہاتھا۔وقت سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔ ہمیں زندگی کے سردوگرم سے اچھی طرح آگاہی بخشتا ہے۔ زندگی کے تپتی لو کے تھپیڑے کھا کھا کرغضنفر کی بھی ایک مخصوص ذہنی سطح ترتیب پاگئی تھی۔ غضنفر عباس سیداگر کبھی روٹھ جاتا تو بالکل ہرجائی لگتا،جیسے کوئی جانتا تک نہیں، قریب ہوتا تو اس جیسا رازداردوست کوئی اور نہ ہوتا۔پچیس سالہ رفاقت کے دھوپ چھاؤں جیسے تعلقات میں مجھے وہ زندگی کی مشکلات سہ کرکندن بننے والا انسان لگا۔ 2009ء میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی طرف سے مختلف مضامین میں لیکچرشپ کی اسامیاں آئیں تو اس نے بھی درخواست بھیج دی۔اسے پبلک سروس کمیشن کے تحریری امتحان کی اطلاع ملی تو اس کا ایک جواں سال بھائی وفات پاگیا،اس کاارادہ متزلزل ہوالیکن دوستوں کے اصرار پر امتحان دینے پرآمادہ ہوگیا۔امتحان پاس ہوگیا اورانٹرویو کی کال آئی تواس سے چنددن پہلے دوسرا بھائی چل بسا، اس طرح کے دکھ بھرے ماحول میں وہ زندگی کی جنگ لڑتارہا۔اس کاحکومت پنجاب کے ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میںاردوکے لیکچرر کی حیثیت سے تقرر ہوگیا،لیکن اس عمل کے دوران میں اسے دوجوان لاشے اٹھانے پڑے۔بقول میر:
قسمت اس بزم میں لائی ہے جہاں کا ساقی 
دی ہے مے سب کوہمیں زہرپلاتا ہے میاں
 انھی مصائب کی وجہ سے بعض اوقات دوستوں سے بھی اس کارویہ قدرے تلخ ہوجاتا تھا۔ غضنفر عباس سید کالج میں میرا رفیق بناتو اس نے باہمی احترام کے رشتوں کو فروغ دیا۔اپنے احباب کو ہمیشہ ایک عزت آمیز محبت دی۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ساہیوال کی ادبی انجمنوں کی سرگرمیوں میں بھی تحرک کا باعث بنا۔ غضنفر عباس سید کی تخلیقات اردو کے معروف ادبی رسائل اوراق،ادبیات،ماہِ نو، سطور،تسطیر،ادب لطیف،ارتکاز،شام و سحر اور دوام وغیرہ میں شائع ہوتی رہیں۔اس کا اولین شعری مجموعہ ’زیرِ آب چراغ‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔دوسرا مجموعہ ’آنکھ بھرکینوس‘اسکی وفات کے بعداس کے احباب مرتضیٰ ساجد، واصف سجاد اوراخترخاں وغیرہ کی کوششوں سے منظرعام پر آیا۔اس کے شعری مجموعے کے فلیپ کے طورپرلکھی گئی تحریر میں خاکسارکی یہ رائے تھی: ’پروفیسر غضنفر عباس سیّد کی غزل میں عہد حاضر کی پوری نسل کا اضطراب در آیا ہے۔ اس لحاظ سے وہ قومی دھارے میں ساہیوال کے چند نمائندہ شاعروں میں سے ہیں۔ ان کی غزل قدیم و جدید موضوعات کا سنگم ہے۔ اس پر کرافٹ مین شپ کی خوبی نے اسے اور بھی وقیع بنا دیا ہے۔ وہ نہ تو کوری روایت کی فرسودگی سے متاثر ہوئے ہیں اور نہ ہی انھوں نے ادھوری جدیدیت کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ ان دونوں میں سے انھوں نے لعل و جواہر چن لیے ہیں جبکہ سنگ ریزے گردونواح کے لوگوں کے لئے رکھ چھوڑے ہیں۔اس لحاظ سے وہ ایک ذہین و فطین آدمی ہیں کہ مستقبل کے شعری رجحانات پر ان کی گہری نظر ہے۔‘
غضنفر سانولی سلونی سی رنگت والا ایک خوش خط انسان تھا۔ایک دن کالج کے کوریڈور میںسے گزرتے ہوئے میں نے بے ساختہ اسے دیکھ کر ملکہ ترنم نورجہاں کے ایک گانے کے بول گنگنائے’ویکھیا ہووے نی کسے تکیا ہووے۔اچا جیہا شملا تے اکھ مستانی ایہو میرے چن جئے ڈھول دی نشانی‘۔اس کے ہونٹوں پرایک عجیب سی مسکراہٹ آئی،میں اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔مجھے کیا خبر تھی کہ یہ اس سے آخری ملاقات ہے،علم ہوتا تواسے جی بھرکے دیکھ تو لیتا۔بقول احمدمشتاق:
بلا کی چمک اس کے چہرے پہ تھی
مجھے کیاخبرتھی کہ مرجائے گا
اس کے عکس کو آنکھوں میں محفوظ کرنے کی سعی کرتا۔لیکن کیاکریں کہ قدرت نے حیات وممات کے ان معاملات کو پردے میں رکھا ہے۔ ایک دفعہ اس سے پہلے بھی برین ہیمرج ہوچکا تھا۔اس بار حملہ شدید تھا۔ہسپتال لے جایا گیا۔ ایک طویل مدت تک موت وحیات کی کش مکش میں مبتلارہنے کے بعد اس نے نجات ملی۔ وہ اصل معنوں میں ایک شعلہ ٔ مستعجل تھا۔ ایسے لوگوں کواب دیکھنا بھی ممکن نہیں۔جوبچ گئے ہیں،یہ بھی نہ رہے تو سمجھیں سب کچھ رخصت ہوا۔ بقول محشربدایونی:
اب ہمیں مے ،ہمیں ایاغ،اب ہمیں لو،ہمیں چراغ
ہم بھی اگرغبار ہوں سمجھو کہ قافلہ گیا
٭…٭…٭

ڈاکٹر افتخار شفیع- سرمایہ¿ افتخار

ای پیپر دی نیشن