افغانستان کی سرزمین ویسے تو ہمیشہ سے جنگوں اور تنازعات کی آماجگاہ رہی ہے مگر گزشتہ چار دہائیوں سے بالخصوص 1978 میں سوویت یونین کی جارحیت کے بعد سے یہ ملک مسلسل عدم استحکام اور قتل و غارت کا شکار چلا آرہا ہے۔ پہلے سوویت یونین کی جارحیت کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے مقامی مجاہدین کو تیار کیا اور ان کی ہر حوالے سے مدد کی تاکہ وہ روسی فوج کے خلاف لڑ سکے اور اس سے افغانستان سے نکال باہر کریں، اس پوری لڑائی میں تقریبا 10 سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا ہے ،بعد ازاں مجاہدین کے مختلف گروپس آپس میں دست و گریبان ہو گئے جو کہ اس طرح کے تنازعات میں ہوتا ہے۔ اسی عرصے میں طالبان کے نام سے ایک نیا گروہ سامنے آیا جس نے سب کو پیچھے چھوڑ کر افغانستان پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی، جسے دنیا نے بوجوہ تسلیم نہیں کیا، ما سوائے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے۔
ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے افغانستان پر بھرپور حملہ کر دیا اور یہ لڑائی اگست 2021ء تک جاری رہی، جس دوران لاکھوں لوگ مارے گئے اور پورا ملک تباہی سے دوچار ہوا، گزشتہ دو سال سے زائد عرصہ سے اب ایک مرتبہ پھر افغانستان پر طالبان کی حکومت ہے جو اپنے آپ کو ایک اسلامی حکومت اور افغانستان کو اسلامی ریاست کہتے ہیں، چونکہ طالبان تقریباً دو دہائیوں تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے لڑتے رہے اور ان کی جدوجہد کے نتیجے میں ہی امریکہ بالاخر وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوا تھا اس لیے امید یہی کی جا رہی تھی کہ اب افغانستان میں امن قائم ہوگا اور ایک مستحکم حکومت بنے گی جو عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گی تاکہ افغانستان کے عوام کو بھی آخر کار امن اور سکون سے زندگی گزارنے کا موقع ملے، مگر تا حال بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا، اور اج بھی یہ ملک غیر یقینی، بدامنی اور بے شمار مشکلات کا شکار ہے۔ طالبان کی حکومت کو دنیا تسلیم نہیں کرتی کیونکہ اسکے بارے میں دنیا کے بہت سے تحفظات ہیں، جنہیں دور کرنے کے لیے کوئی موثر اور سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کی جا رہی، پاکستان ایک ہمسایہ اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے افغانستان کے حالات سے لا تعلق نہیں رہ سکتا جس کی وجہ سے گزشتہ 40 سالوں سے افغانستان کے حالات کی وجہ سے پاکستان نے بھی بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے اور آج بھی اٹھا رہا ہے، ہم نے چار دہائیوں سے 30 لاکھ سے زیادہ افغانیوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے جو کہ اب تک کسی بھی ملک مہاجرین کی بڑی تعداد ہے۔
ہمارا معاشرہ ان مہاجرین جن میں بتدریج بہت سے لوگ غیر قانونی طور پر بھی شامل ہو گئے کی وجہ سے بہت بری طرح متاثر ہوا ہے ہماری معیشت اور معاشرتی اقدار پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں، دسمبر 2012ء میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد ہمیں بھی نہ چاہتے ہوئے اس جنگ میں شامل ہونا پڑا حالانکہ یہ جنگ کسی بھی حوالے سے ہماری جنگ نہیں تھی اس جنگ نے ہمیں ایک ایسی دلدل میں پھنسا دیا جس سے ہم آج تک نہیں نکل سکے، دہشت گردی کی ایک ایسی لعنت ہمارے ملک میں داخل ہوئی جس کے نتیجے میں تقریبا 80 ہزار بے گناہ پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں تقریبا 20 ہزار کے قریب لوگوں کا تعلق سکیورٹی فورسز سے ہے، ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان 'ہو چکا جبکہ معاشرے پر اسی جنگ کے ایسے اثرات پڑے ہیں جن کو دور کرنے میں بہت سال لگیں گے۔
آج بدقسمتی سے پاکستان کے لا تعداد احسانات کا بدلہ ہمیں مسلسل دہشت گردی کی صورت میں دیا جا رہا ہے، باوجود اسکے کہ پاکستان آج بھی انتہائی صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے کیونکہ پاکستان کو افغانستان کے عوام کا خیال ہے جو آج بھی انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، آج افغانستان بد قسمتی سے دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، جہاں تازہ ترین اطلاعات کیمطابق 23 سے زیادہ دہشت گرد تنظیمیں افغانستان کی سرزمین سے سرگرم عمل ہے، ان تنظیموں کو تحریک طالبان پاکستان کی مکمل سرپرستی حاصل ہے اور یہ دنیا کے 54 سے زیادہ ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں، ان 23 تنظیموں میں سے 17 براہ راست پاکستان میں دہشت گردی کر رہی ہیں، جس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان تنظیموں کا سب سے بڑا معترف پاکستان ہے۔گزشتہ ماہ سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں واضح اضافہ دیکھا جا رہا ہے جن میں تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسلک تنظیمیں براہ راست ملوث ہیں۔ پاکستان کی مسلسل افغانستان کی عبوری حکومت سے اس بارے میں معلومات کا تبادلہ کر رہا ہے اس سے بارہا یہ بات بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا اسکی بنیادی ذمہ داری ہے، بدقسمتی سے ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں جن سے یہ بات عیاں ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت جو کہ تحریک طالبان افغانستان پر مشتمل ہے اس کے کچھ ذمہ دار لوگ بھی ان دہشت گرد تنظیموں سے ملے ہوئے ہیں اور کسی نہ کسی حوالے سے انکی سرپرستی حاصل کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی اب ایک اٹل حقیقت ہے کہ امریکی فوج افغانستان سے حمایت میں جاتی ہوئی بڑی تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود وہاں چھوڑ گئی تھی جو کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ آچکا ہے اور وہ اس سے پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اسی بات کے واضح ثبوت ہم بہت مرتبہ میڈیا پردکھا چکے ہیں اور افغانستان کی عبوری حکومت سے بھی شیئر کر چکے ہیں۔ پاکستان بارہا یہ بات افغانستان کی عبوری حکومت پر واضح کر چکا ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف حکومت بھرپور ایکشن صرف اسی کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ اس کے اپنے عوام کے لیے بہت ضروری ہے۔
آج دنیا افغانستان کی اس عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کرتی اور اگر یہ ملک اسی طرح دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا رہا تو پھر دنیا کسی بھی بڑے سانحے کا شکار ہو سکتی ہے جس کا سارا ملبہ ظاہر ہے پہلے کی طرح افغانستان کے عوام پر ہی گرے گا اور ظاہر ہے اس کا اثر پاکستان پر پڑے گا۔ افغانستان کی حکومت کو اپنی ساکھ کی خاطر بھی ایسے اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ان کی حکومتی عملداری بہتر ہو اور دنیا بتدریج انہیں تسلیم کرنے لگے پاکستان نے اب تک بہت صبر سے کام لیا ہے مگر ایسا کرنا ایک لمبے عرصے تک ممکن نہیں ہے، روزانہ کی بنیاد پر ہمارے لوگ جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ایک بلا جواز جنگ کا شکار ہو رہے ہیں۔ بالاخر ہمیں بھی انتہائی اقدام اٹھانا پڑے گا جس کی بھرپور صلاحیت تو ہم رکھتے ہیں مگر ایک ذمہ دار ریاست ہونے کی بنیاد پر اس سے ابھی تک اجتناب کر رہے ہیں، امریکہ سمیت ہم ساری عالمی برادری کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور افغانستان کو ان دہشت گردوں کی مزید آماجگاہ بننے سے روکیں تاکہ جو خطے اور دنیا کے امن کے لیے بہت ضروری ہے۔
٭…٭…٭
افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ
Dec 29, 2023