جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن ایک ریسرچ بیسڈ ایجوکیشنل نان پرافٹ ادارہ ہے جس میں کام کرنے والے ایک محقق اور سیاسی تجزیہ کار ناد ِ علی سلہریا نے جو کہ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ماروِن جی ویئن  باوم کو ادارے میں اسسٹ کرتے ہیں، پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی شخصیت ، فکر ، ویڑن ، پالیسیز ، کام کرنے کے انداز اور ان کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز کا تجزیہ پیش کیا ہے جسے جنرل منیر ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا ہے۔ 
 دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے ان گنت تھنک ٹینک موجود ہیں جن میں ہر وقت تحقیق و تجزیے کا کام جاری رہتا ہے۔ میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق ایسے تجزیوں کو نشر کرنے کا سادہ سا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ ادارے نے اپنا کام کیا ہے لیکن بعض اوقات اس سے آگے کے مقاصد کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ کئی دفعہ ایسے نشریوں کا مقصد دوسرے ممالک اور ان کے لیڈرز کی پالیسیوں کو سمجھنے کے علاوہ ان پر دبائو قائم کرنا بھی ہوتا ہے۔ 
تجزیہ کار کے مطابق منیر ڈاکٹرائن کا اہم پہلو 
جو کہ یقیناً کسی چیلینج سے کم نہیں، پاکستان کو امریکہ اور چین کے درمیان کسی ایک کے انتخاب کے مخمصے سے دور رکھنا ہے۔ جنرل منیر نے عالمی سیاست میں الجھنے کی بجائو اپنی توجہ پاکستان کے لیے زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد حاصل کرنے پر مرکوز کی ہے تاکہ معاشی خود مختاری حاصل کرکے بڑی طاقتوں کی تابعداری سے بچا جا سکے۔ میں سمجھتا ہوں آج بھی پاکستان کے لیے امریکہ اور چین کو توازن سے لے کے چلنا ناممکن اس لیے نہیں ہے کہ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب پاکستان نے امریکہ اور چین کے درمیان پیدا ہوجانے والی غلط فہمیوں کے باعث بڑھ جانے والے فاصلوں کو کم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ سو جنرل عاصم منیر کے سامنے یہ مثال موجود ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑی کامیابی جو جنرل عاصم منیر کے حصے میں آئی ہے وہ ایک طرف تو بھارتی علاقائی اجارادارنہ ذہنیت اور دوغلے چہرے کو بالعموم بین الاقوامی برادری اور بالخصوص امریکہ کے سامنے لانا ہے بھی ہے اور پھر افغانستان کے ذریعے پاکستان میں کی جانیوالی دہشت گردی کو پیچھے اسکے کرتوتوں کو بے نقاب کرکے امریکہ کی حمایت حاصل کرنا بھی ہے۔ دوسری طرف تعطل کا شکار سی پیک کو دوبارہ فعال کرنے کی نہ صرف پالیسی بنانا بلکہ اس کا عملی مظاہرہ کرکے پراجیکٹ کو واپس ٹریک پر لا کر چین کی تشویش کا ازالہ کرنا ہے۔ اندرونی اور بیرونی ہر سطح پر چاروں طرف سے امڈ امڈ کر آنے والی مشکلات کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جانے اور ہر محاذ پر واضح سٹرٹیجک پوزیشن کیساتھ نظر آنے کے عمل نے جہاں امریکہ سمیت پوری دنیا کے سامنے جنرل عاصم منیر کا بہت مثبت امیج بنایا ہے وہاں پاکستان کے امیج میں بھی بہتری آئی ہے۔ 
تجزیہ کار لکھتا ہے کہ جنرل عاصم منیر کی جانب سیانڈیا کو پاکستان میں دہشت گردی جاری رکھنے اور افغانستان کے دہشت گروں کو اکاموڈیٹ کرنے پر وارننگ دینے سے جہاں ایک بے خوف اور دلیرانہ قیادت کا تاثر ابھرا ہے وہاں پاکستان کا معاشی کمزوری کے باوجود عسکری طور پر مضبوط اور طاقت ور ہونے اظہار ملتا ہے۔ تجزیہ کار کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے تین نکات جنرل عاصم منیر کی ترجیح کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ 
نمبرایک۔ پاکستان کے بین الاقوامی امیج میں بہتری لانا ، نمبر دو۔ علاقائی سطح پر پاکستان کو درمیانی طاقت کے حامل ملک کے طور پر بلند کرنا اور نمبر تین۔ جغرافیائی سیاست کی بجائے جغرافیائی معیشت کو ترجیح دینا۔ 
تجزیہ کار اپنے تجزیے کے اہم نکات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پاکستان کے لیے جنرل منیر کا جیوسٹریٹیجک وڑن، بظاہر ایک خواب لگتا ہے لیکن جنرل عاصم منیر اپنے پہلے سال ہی میں کئی کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں۔ ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لیے انہوں نے بدعنوانی، سمگلنگ، توانائی کی چوری، غیر قانونی طریقوں اور غیر مجاز امیگریشن کے خلاف ایک جامع کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ جنرل منیر نے نہ صرف پاکستان کی معیشت کی بحالی کا عزم واضح کیا ہے بلکہ خود کو ملک میں استحکام کے ضامن اور بین الاقوامی برادری کے لیے رابطے کے بنیادی نقطہ کے طور پر بھی پیش کیا ہے جس سے پاکستان کو ایک اہم مارکیٹ میں تبدیل کرنے کے انکے مقصد کی نشاندہی ہوتی ہے جو مختلف عالمی اقتصادی مفادات کو اکٹھا کر سکتی ہے۔
سیکیورٹی کے محاذ پر جنرل منیر نے تحریک طالبان پاکستان جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں اضافہ کرتے ہوئے امن کے لیے بات چیت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے وسطی، مغربی، مشرقی اور جنوبی ایشیائی خطوں کے ممالک کے ساتھ فوجی تعاون کے معاہدے کر کے فوج کی دفاعی صلاحیت کو مضبوط کیا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں کثیر القومی انسداد دہشت گردی مشق کی میزبانی کی ہے جو جنرل منیر کی دو جہتی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ سب سے پہلے، اس کا مقصد افغانستان سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اہم کردار سے فائدہ اٹھانا اور دونوں پڑوسی ممالک اور امریکہ، چین اور روس جیسی عالمی طاقتوں کے خدشات کو دور کرنا ہے۔ دوسرا علاقائی فوجی اتحاد کو مضبوط کرکے ہندوستان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ 
 اگرچہ تجزیہ کار جنرل عاصم منیر کی پاکستان کو ان تمام چیلنجز سے کامیابی کے ساتھ نکال لے جانے اور ایک خود انحصاری معاشی و عسکری قوت بنانے کو ایک خواب کی حیثیت دیتا ہے لیکن ایک سال کے اندر حاصل کی گئی کامیابیاں بھی اس کے پیش نظر ہیں۔ 
میرے اپنے ذاتی تجزیے کے مطابق جنرل عاصم منیر کی پہلے سال کی کارکردگی اور آئندہ کی حکمت عملی نے جہاں دنیا کو حیران کر رکھا ہے وہیں "اب گرتے کہ اب گرتے" پاکستان کو سنبھال کر ایک دفعہ پھر ترقی اور استحکام کے ٹریک پر چڑھا دیا ہے۔ جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ الیکشن ہر صورت میں ہونگے تاکہ بین الاقوامی سطح پر مزید سوالات کو پیدا ہونے سے روکا جائے لیکن یہ بھی واضح ہے کہ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے سول حکومت کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا اور ہر محاذ پر حکومت کی مدد کی جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن