پشاورسے لے کراچی تک ملک کے وہ تمام بڑے اور چھوٹے شہر جہاں فوج کی چھاؤنیاں ہیں اور وہاں سول آبادیاں بھی موجود ہیں ،ان شہروں میں بسنے والوں کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ وہ کنٹونمنٹس میں جاکر آباد ہوں اور وہاں کاروبار کریں۔ انکی یہ خواہش بلاوجہ نہیں ،کسی بھی کنٹونمنٹ میں چلے جائیں وہاں نہ تو آپ کو سیوریج کی لائنیں بند اور گٹر ابلتے ہوئے دکھائیں دینگے۔ نہ ہی رات کے وقت سڑکیں یا گلیاں اندھیرے میں ڈوبی ملیں گی۔ اگر کہیں کوئی اس طرح کا مسئلہ درپیش بھی ہوتو شہریوں کی اطلاع پر کنٹونمنٹ کا عملہ فوری تدارک کیلئے موقع پر پہنچتا ہے۔ صاف پانی کی ترسیل کا نظام اس قدر محفوظ ہے کہ ان علاقوں کے باسی پینے کے پانی کیلئے فلٹریشن پلانٹس کا رخ کرنے یا گھروں میں نل پر فلٹر لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ کنٹونمنٹس میں لگی پانی کی ٹربائن 7سے 8سوفٹ گہرائی سے پانی کھینچ کر اسے براہ راست گھروں یا کاروباری مراکز تک پہنچاتی ہیں۔ اگر کہیں سیوریج کی لائن بیٹھ جائے یا صاف پانی کا پائپ خراب ہوجائے تو اسے تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ رہائشیوں کا اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے یا برائے راست کنٹونمنٹس کے دفاتر سے رابطہ رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کنٹونمنٹ ایگزیکٹو آفیسر تک وہاں کے ہر شہری کو رسائی حاصل ہے۔ سڑکوں گلیوں اور محلوں میں صفائی اور کوڑا کرکٹ سمیٹنے کا مربوط نظام ہمہ وقت متحرک رہتا ہے۔ علاوہ ازیں سڑکوں کے گرد سرسبز گھاس، لہلاتے درخت اور جگہ جگہ تفریح کیلئے بنائے گئے وسیع پارک کنٹونمنٹس کی خاص پہچان ہیں۔ ان علاقوں میں سیکورٹی کے سخت نظام کی بدولت شہر کے سول علاقوں کی بہ نسبت یہاںجرائم کی شرح بہت ہی کم رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گھرانے جومالی استطاعت رکھتے ہیں، کنٹونمنٹس میں رہائش رکھنے یا وہاں تجارت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ویسے بھی اگر بڑے شہروں میں کنٹونمنٹس کے رہائشیوں پر نظر ڈالیں تو زیادہ تر سیاستدانوں ، بیوروکریٹس ، صنعت کار وں، کاروباری شخصیات یا پرائیویٹ اداروں و بینکوں کے اعلیٰ افسران یا سربراہان کا تعلق بھی انہیں علاقوں سے ملے گا۔ جس کی بڑی اور بنیادی وجہ کنٹونمنٹس کا موثر، متحرک اور منظم میونسپل نظام ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ دو ہفتے قبل سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے کنٹونمنٹ پر اپنے زیر انتظام علاقوں سے پراپرٹی ٹیکس کی وصولی پر لگائی جانے والی پابندی کے بعد کنٹونمنٹس کے رہائشی یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ اس قانون پر عملدرآمد کے بعدان کا پرسان حال کون ہوگا؟۔ صوبوں میں ضلعی حکومتوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ کوڑے کے ڈھیر کراچی سمیت بہت سے شہروں میں پہاڑ بن چکے ہیں۔وہاں برسوں سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ گلی محلوں کو تو چھوڑیں اہم شاہراہوں پر رات کے وقت بیتاں گل اور اندھیروں کا راج رہتا ہے۔ صوبائی دارالحکومتوں میں صرف وہ علاقے جہاں وزراء چیف منسٹر ، گورنر یا بڑے سول افسران کے گھر ہیں یا ان کی جہاں سے روزنہ آمدورفت رہتی ہو۔ہمہ صاف اور رات کوروشن ملتے ہیںجبکہ باقی علاقوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔صوبوں کے دیگر شہروں کی حالت روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔ اسکے برعکس کنٹونمنٹس کے دفاتر میں کسی بھی میونسپل مسئلے پرٹیلی فون کے ذریعے یاذاتی طور پر دستیاب شکایت درج کرانے کی صورت ہر وقت دستیاب رہتی ہیں۔ دوسری طرف شہروں میں عام شہری کا بڑے افسرتک پہنچنا تو دور کی بات ہے دفتر کے اندر داخل ہونا بھی محال ہوتا ہے۔ اس پوری صورتحال کا اہم پہلو یہ ہے کہ کنٹونمنٹس کے علاقے وفاق کے زیرانتظام چلتے ہیں۔ اگر کوئی کنٹونمنٹ مالی مشکلات کا شکار ہوجائے اسے ہنگامی بنیادوں پر وفاق سے امداد کی سہولت دستیاب رہتی ہے۔ لیکن جب کنٹونمنٹس سے ہرطرح کا ٹیکس صوبے وصول کریں گے تو پھر وفاق کہاں سے اور کیوں مالی مدد فراہم کرے گا۔ ویسے بھی کینٹ کے علاقوں سے وصول کیا گیا ٹیکس جب صوبوں کے خزانے میں جائے گا توپھر صوبائی حکومتوں کی مرضی ہے کہ وہ کہاں اور کس شہر میں فنڈز کے استعمال کو ضروری سمجھتے ہیںجس میں کم از کم کنٹونمنٹ کے علاقے انکی نظر میں اہمیت کے حامل نہیں ہونگے۔ اس صوابیدی اختیار کی بدولت ہی ہر صوبے میں تعمیرو ترقی کیلئے صوبائی حکومتوں کی نظر ِ کرم ہمیشہ صوبائی دارالحکومتوں تک ہی محدود رہی ہے۔
مندرجہ بالا حقائق اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے کنٹونمنٹس پر پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کی پابندی کا فیصلہ2010ء میں کئی گئی اٹھارہویں ترمیم کے عین مطابق کیا۔ بدقسمتی سے ملک کے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کرتے وقت ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے صوبوں کو مالی خود مختاری دینے کی خوشی میں کنٹونمنٹس کے علاقوں سے پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کا حق تو صوبوں کے حوالے کردیا لیکن یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ ان علاقوں کے روز مرہ میونسپل مسائل حل کرنے کی مالی ذمہ داری کس کے پاس ہوگی؟ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کنٹونمنٹس میں رہنے والے کچھ بااثرطبقات کا خیال ہے کہ وہ اپنے اثرو رسوخ کی بدولت خود پر لاگو ہونیوالے پراپرٹی ٹیکس کو اپنی سہولت کیمطابق باآسانی کم کرانے کی پوزیشن میں ہونگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی طور پر بااثر طبقات اپنے عالیشان محلات کے ٹیکس قطعی طورپر معاف کرانے کی قوت رکھتے ہیں لیکن وہ لوگ کہاں دستک دینگے جن کا چاچا، ماما، پھوپھا یا قریبی رشتہ داروزیر، بااثر سیاستدان یا بڑا افسر نہیں ہے۔کنٹونمنٹس کے رہائشیوں کو یہی فکر کھائے جارہی ہے کہ مالی طورپر کنٹونمنٹ کے ادارے کو غیر فعال کیا جانے کے بعدوہ اپنے علاقوں کو لیاری یا گوالمنڈی بننے سے کیسے روک پائیں گے ؟ سندھ ہائی کورٹ اپنا فیصلہ اٹھارہویں ترمیم کے مطابق دے چکی ہے۔ جس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا راستہ موجود ہے لیکن اس مسئلے کے حل کیلئے اب دو ہی راستے ہیں یا تو سپریم کورٹ یہ مسئلہ واپس قومی اسمبلی کو بھیج دے تاکہ وہاں اٹھاوریں ترمیم میں رہ گئی کمزوری کو دور کیا جاسکے یا پھر وفاقی حکومت اپنے 44 کنٹونمنٹس میں بسنے والی 60لاکھ سے زیادہ آبادی کیلئے سالانہ یا ماہانہ خصوصی فنڈ قائم کرے جو آبادی کے تناسب سے ہر کنٹونمنٹ کو فراہم کیاجاتا رہے۔
کنٹونمنٹس میں سول آبادیوں کا مستقبل !
Dec 29, 2023