بخدا، مخدوم جاوید ہاشمی کے بیان نے اخبارات و رسائل کا وہ سنہرا دور یاد کرا دیا جب ان کی اشاعت بھی کثیر الاشاعت کے زمرے میں آتی تھی اور ان میں اشیائے صرف کے دیدہ زیب اشتہارات بھی چھپتے تھے۔ یہ انوکھی بات بھی بتاتے چلیں کہ قارئین کے کئی زمروں میں ایک زمرہ وہ بھی تھا جو اخبارات و رسائل کا متن بعدمیں پہلے اشتہارات کا مطالعہ فرماتا تھا۔ اب تو اشیائے صرف کے اشتہارات سب کے سب الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر آ گئے ہیں، پرنٹ میڈیا کے حصہ میں رہ گئے غیر جاذب نظر سرکاری اشتہارات یا اکتا دینے والے پراپرٹی مافیا کے پوسٹر…
اسی گزرے سنہری زمانے میں ایک اشتہار اس عنوان کے تحت چھپا کرتا تھا کہ بڈّھے اور بچے ایک برابر ہوتے ہیں۔ سرخی کے نیچے تصویر میں ایک چھوٹے بچے کو دادا میاں کی گود میں بیٹھے دکھایا گیا تھا اور نیچے عبارت میں لکھا تھا کہ بچوں اور بوڑھوں کو ’’سنبھالنے‘‘ کیلئے ایک جیسی غذا چاہیے۔ یہ کسی انرجی ٹانک کا اشتہار تھا اور لکھا تھا کہ بچے اپنی نشوونما کیلئے اضافی توانائی کے محتاج ہیں اور بڈھے اپنے اضمحلال اور ناتوانی کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے، ورنہ وہ اور کمزور ہو جائیں گے۔
سرخی سے خیال گزرتا تھا کہ چونکہ بڑھاپے میں بہت سے بزرگوں کے حواسِ عقلی کم تر ہو کر بچوں کی سطح پر آ جاتے ہیں اور یہ اشتہار اسی بارے میں ہے لیکن یہاں معاملہ صرف قوائے جسمانی کا مذکور تھا، بہرحال دونوں ہی باتیں درست ہیں۔ سب کے معاملے میں نہ سہی، کچھ کے معاملے میں ہی سہی، وہی ’’کچھ‘‘ جن کو ’’بڈھا سٹھیا گیا ہے‘‘ کا ٹائٹل دیا جاتا ہے یا پھر میاں بڈھے ہو گئے، باتیں اب بھی بچوں کی سی کرتے ہو۔
_____
تو خیر، یہ اشتہار یاد آیا اور خوب یاد آیا، اپنی ’’فوٹو گرافک ڈیٹیل‘‘ کے ساتھ، بچہ کیسا تھا، بزرگ کے خدوخال کیسے تھے، جس کرسی پر دادا حضور بیٹھے تھے، وہ کیسی تھی، بچے کے چہرے کے تاثرات کیا تھے، دادا جی کتنے خوش نظر آ رہے تھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ اشتہار جیسا کہ لکھا، اور پھر لکھتا ہوں کہ جاوید ہاشمی کا بیان پڑھ کر یاد آیا۔
بیان ناصحانہ اور خیر خواہانہ تھا۔ فرمایا،9 مئی کے ذمہ داروں کو، اگر انہوں نے کچھ کیا ہے تو معاف کر دیا جائے۔ جمہوریت کیلئے اور ملکی مفاد کیلئے اس معاملے کو نظرانداز کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مرحوم نیپ کے مرحوم رہنما اجمل خٹک کی مثال دی جنہیں معاف نہیں کیا گیا تھا اور انہوں نے کابل جا کر جلاوطن حکومت بنا لی تھی۔
مخدوم صاحب کے بیان میں ’’اگر‘‘ کا استعمال کمال کا ہے۔ایسے مقام میں ’’اگر‘‘ کا لفظ جاوید ہاشمی جیسے دل گردے اور ذہن و دماغ رکھنے والا دلیر بہادر ہی کر سکتا تھا۔ یعنی ملاحظہ کیجئے، تین ’’اکھّر‘‘ الف، گاف اور رے کے لکھے اور نو مئی کا پورا معرکہ ہی غتربود کر دیا۔ یہ کام تو قبلہ سراج الحق بھی نہیں کر سکے۔ ان کے انٹرویو میں ہے کہ نو مئی تو ہوا لیکن یہ سیکورٹی والوں نے ’’غائب‘‘ رہ کر کیا۔ ہاشمی صاحب قبلہ سراج الحق کے بھی امام نکلے۔
غتربود کے یہاں معنے ہیں برباد یا نیست و نابود کرنا۔ ایک دوسرے معنے گڈمڈ کرنے کے بھی ہیں لیکن اس معنے کا اطلاق سراج الحق صاحب کے استدلال پر ہوتا ہے، ہاشمی صاحب کے ’’استخراج‘‘ پر نہیں۔
خیر، اگر سے آگے بڑھتے ہیں۔ بزرگ (بعض) اور بچے ایک جیسے ہوتے ہیں کی تشریح مزید پر، مناسب ہے کہ قانوں سازی کر دی جائے تاکہ آئندہ ایسا کوئی موقع ہی نہ آئے جب 9 مئی جیسے واقعے کے اثرات مابعد پر کسی اور جاوید ہاشمی کو اس طرح کا بیان دینا پڑ جائے، یعنی قانون سازی کر کے جی ایچ کیو، کور کمانڈرز ہائوس، ائیرفورس بیس، رینجرز ہیڈ کواٹر وغیرہ قسم کی عمارتوں پر حملے کرنا، انہیں آگ لگانا، ان پر پتھرائوکرنا جیسے امور کو بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق میں شامل کر دیا جائے۔ ایسا ہونے کے بعد 9 مئی کے واقعات میں خاصی آسانی ہو جائے گی، مقدمات بنیں گے نہ گرفتاریاں ہوں گی، یوں انسانی بنیادی جمہوری حقوق کی گاڑی ہموار رفتار سے چلتی رہے گی۔
بظاہر ایسی قانون سازی میں کوئی خرابی نہیں۔ پارلیمنٹ پر حملہ، ٹی وی سٹیشنز پر قبضہ تو پہلے ہی نہ صرف انسانی جمہوری بنیادی حقوق میں شامل ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کو تمغہ ہائے امتیاز بلا امتیاز بھی ملتے ہیں اور بعضے تو صدر مملکت کے منصب پر بھی بٹھا دئیے جاتے ہیں۔ وہ ہے تو یہ بھی سہی، ووں ہے تو یوں بھی سہی۔
_____
لفظ یا ترکیب غتر بود بذات خود غتربود کا نمونہ ہے۔ اصل ترکیب ’’بلاغت ربود‘‘ تھی۔ ربود کے معنے اچک لینا، اٹھا لینا وغیرہ کے ہیں۔ کسی مناسب وقت پر ، مناسب موقع دیکھ کر، کسی ادیبِ ستم ظریف نے بلاغت کے ’’بلا‘‘ کو ’’بلائے بود رسیدہ‘‘ والی بلا سمجھ کر غتربود کر دیا اور باقی ماندہ رہ جانے والی غت (غ اور ت) کو ناکافی سمجھ کر ربود کی رے کے ساھ ملا کر ایک نیا لفظ ’’غتر‘‘ فارسی لغت کو عنایت فرما دیا۔ تب سے غتربود کا سلسلہ جاریہ جاری ہوا۔
بہرحال، امید ہے کہ ہاشمی صاحب کے اس بیان سے گریٹ خان کے وکلا کو قدرے مشکل کشائی مل جائے گی جو اب تک 9 مئی کا دفاع کرنے میں کبھی اِدھر سے دلیل لاتے ہیں کبھی اْدھر سے لیکن بات نہیں بنتی۔
_____
9 مئی کے حوالہ سے افواہ نما بریکنگ نیوز چل رہی ہے کہ چیئرمین سینٹ ایوان صدر میں مقیم ایک صاحب سے ملے اور ایوان صدر میں مقیم ان صاحب نے چیئرمین سینٹ کو بتایا کہ خان صاحب 9 مئی پر معافی مانگنے کو بالکل تیار نہیں ہیں حالانکہ انہیں آگاہ کر دیا گیا تھا کہ اگر آپ نے معافی نہ مانگی تو برے پھنسے والا معاملہ بہت ہی برے پھنسے والا ہو جائے گا۔
اگر یہ روایت یعنی بریکنگ نیوز درست ہے تو بنارسی میاں کو داد دیجئے جو بہت پہلے اس کیفیت کو ’’شعر‘‘ بنا گئے کہ
کیف ہم اپنی دھن کے پکّے ہیں
ہم نے کچّے گھڑے کی پی ہی نہیں
یعنی یہ کہ ہم تو اور کریں گے، ہم تو یہی کریں گے۔!
یاد ہو گا خان صاحب نے 10 مئی کو پہلے سپریم کورٹ اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ جا کر کیا فرمایا تھا۔ یہی نہ کہ پھر پکڑو گے تو پھر بھی یہی کچھ ہوگا۔
_____
بہرکیف ایوان صدر میں مقیم مذکورہ صاحب کا ایک بیان بھی خوب زیر گردش ہے۔ یہ کہ پاکستان میں انسانی حقوق سخت پامالی ہو رہے ہے۔ لوگ باگ کہہ رہے ہیں کہ مملکت کے سربراہ کی طرف سے ایسے بیان کا مطلب دشمن کے ہاتھ میں ہتھیار دینا ہے۔ لیکن حضرت، صدر مملکت نے یہ بیان دیا ہی کب، یہ بیان صدر مملکت نہیں، ایوان صدر میں بیٹھے ایک صاحب نے دیا ہے صاحب!