اسٹیٹ بینک نےگورنر کی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال 2022-23ء جاری کردی

بینک دولتِ پاکستان کی جانب سے آج جاری کردہ گورنر کی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال 2022-23ء کے مطابق متعدد بیرونی اور ملکی معاشی دھچکوں (shocks)کے باعث مالی سال 2023ء غیر معمولی طور پر ہمت آزما رہا، جسے دیرینہ ساختی کمزوریوں نے مزید دشوار بنادیا، اور معاشی سرگرمیوں میں سکڑاؤ کے حالات میں مہنگائی مسلسل بلند سطح پر رہی۔اس سال مون سون کے تباہ کن سیلاب کے وسیع پیمانے پر اثرات دیکھے گئے، جبکہ عالمی سطح پر اجناس کی بلند قیمتوں ، تخمینے سے کم مالیاتی یکجائی (fiscal consolidation) اور آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کے نویں جائزے میں تاخیر نے بیرونی کھاتے پر دباؤ بڑھادیا تھا۔گورنر کی سالانہ رپورٹ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956ء (جنوری 2022ء تک ترمیم شدہ) کے سیکشن 39(1) کے مطابق شائع کی جاتی ہے، جس کے تحت گورنر، اسٹیٹ بینک کے مقاصد، زری پالیسی کی تشکیل، معیشت اور مالی نظام کی کیفیت کے بارے میں سالانہ رپورٹ مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) میں جمع کرانے کے پابند ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 23ء میں اوسط عمومی قومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی بڑھ کر مالی سال 23ء کے لیے اسٹیٹ بینک کے نظرثانی شدہ تخمینے 27.0 تا 29.0 فیصد کی اوپری سطح یعنی 29.2 فیصد تک پہنچ گئی۔ رپورٹ کے مطابق، یہ امر اُن بیشتر ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں متعدد دہائیوں کی بلند مہنگائی سے ہم آہنگ ہے، جنہوں نے سخت زری پالیسی مؤقف اختیار کیا۔ اجناس کی بلند عالمی قیمتوں سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔تاہم آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کے نویں جائزے کے بارے میں بے یقینی ، بیرونی رقوم کی ناکافی آمد اور قرضوں کی شیڈول کے مطابق واپسی کے حالات میں بیرونی کھاتے پر دباؤ اور اس کے نتیجے میں شرح مبادلہ میں کمی نے بھی مہنگائی بڑھانے میں کردار ادا کیا۔یہ سب مہنگے ایندھن اور غذائی اشیا ، شرح مبادلہ میں کمی، توانائی کی قیمتوں اور بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے، بلند مہنگائی کی توقعات اور ان کے نتیجے میں بڑھنے والی اجرتوں کے اثرات کی منتقلی کے علاوہ تھا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سیاسی غیریقینی صورتِ حال کاروباری اداروں اور صارفین کے احساسات پر اثرانداز ہوئی، جس نے معاشی سرگرمیوں کو متاثر کیا۔ حقیقی جی ڈی پی میں 0.2 فیصد کمی آئی اور تخمینے سے کم ٹیکسوں کی وصولی اور زرِاعانت میں بجٹ تخمینے سے کم کٹوتی کے باعث حکومت کے مالیاتی اور بنیادی توازن کے بجٹ اہداف بڑے مارجن سے حاصل نہ ہوسکے۔باوجودیکہ سال کی دوسری ششماہی میں مالیاتی پالیسی اقدامات قابل ذکر تھے لیکن چونکہ تاخیر سے کیے گئے، اس لیے ایسا دیکھا گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے ان چیلنجوں کے ردِعمل میں سکڑاؤ کی زری پالیسی برقرار رکھتے ہوئے مالی سال 23ء کے دوران پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر 825 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کیا جبکہ مالی سال 22ء میں بھی 675 بیسز پوائنٹس بڑھائے گئے تھے۔گورنر کی سالانہ رپورٹ مالی سال 23ء میں ان متعدد اقدامات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو مرکزی بینک نے پاکستانی روپے اور عمومی قیمتوں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے تناظر میں ملکی طلب اور درآمدات پر قابو پانے کی خاطر کیے تھے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اگرچہ معاشی سرگرمیوں پر قلیل مدتی اثرات کے پیشِ نظر ان میں سے کچھ اقدامات مشکل تھے.تاہم بیرونی قرض کی مقررہ وقت پر واپسی اور وسط مدت میں معاشی استحکام کو لاحق وسیع تر خطرات پر قابو پانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔مالی نظام کا استحکام برقرار رکھنے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری کے متعلق رپورٹ میں اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ ملک کے مالی شعبے میں بتدریج نمو ہوئی اور یہ تسلسل کے ساتھ معیشت میں قرضوں اور مالی خدمات کی ضروریات پوری کرتا رہا۔مالی سال 23ء میں بینکاری شعبے کے کُل اثاثوں میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق، زیرِ جائزہ مدت کے دوران بینکاری شعبے میں اسلامی بینکاری اداروں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور قرضوں کی فراہمی اور سرمایہ کاری کے ہمراہ ڈپازٹس میں دوہندسی نمو حاصل کر کے روایتی بینکوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔گورنر کی سالانہ رپورٹ مالی سال 23ء میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے حکومت کی معاشی پالیسیوں کی اعانت کے لیے اقدامات کے اپنے تیسرے اہم مقصد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور وسائل کے بہتر استعمال کے ساتھ ساتھ مرکزی بینک کے مقصدِ ثلاثی (tertiary) کے حصول کے لیے اقدامات بنیادی اور ثانوی مقاصد کو تقویت دینے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ وسط تا طویل مدت میں زری اور مالی نظاموں پر ان کے اساسی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بالخصوص، رپورٹ میں اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ ڈجیٹل مالی خدمات کو وسعت دینے کے لیے مالی شمولیت کی قومی حکمت عملی کے نفاذ پر، جبکہ مالی شمولیت میں صنفی تفاوت کم کرنے کے لیے ’برابری پر بینکاری‘ پر اسٹیٹ بینک کی مسلسل توجہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک ڈجیٹل بینکوں کے ذریعے مالی خدمات کی ڈجیٹائزیشن میں سہولت دے رہا ہے اور اس سلسلے میں جدید مالی مصنوعات اور سسٹمز کو بھی بروئے کار لا رہا ہے چنانچہ برقی زری اداروں (EMIs) اور کلاؤڈ سروس فراہم کنندگان کے بارے میں جامع رہنمائی دی گئی ہے۔رپورٹ میں قیمتوں کے استحکام کے حصول اور انہیں برقرار رکھنے کے لیے مرکزی بینک کی ذمہ داری کو تسلیم کیا گیا ہے جبکہ قیمتوں اور مالی استحکام کے لیے مالیاتی پالیسی اور موثر انتظامی کردار پر بھی زور دیا گیا، جس میں خاص طور پر سرکاری اخراجات میں کمی، محاصل کی وصولی میں اضافہ، خوراک اور توانائی کی رسدی زنجیروں (supply chains) کو مضبوط بنانا اور پیداواریت میں اضافہ کرنا شامل ہیں۔گورنر کی رپورٹ مالی سال 23ء میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مرکزی بینک بلند مہنگائی کے گہرے اثرات کی پائیداری کو روکنے اور مہنگائی کی توقعات پر قابو پانے کے لیے فیصلے کرتا رہے گا. تاکہ مالی سال 25ء کے اختتام تک اسے 5 سے 7 فیصد تک لانے کے وسط مدتی ہدف کو حاصل کیا جاسکے، اور مالی سال 24ء میں سکڑاؤ پر مبنی زری پالیسی کے اثرات، ملکی رسد میں بہتری، غیرتوانائی اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی اور بلند اساسی اثر کے باعث مہنگائی کی شرح معتدل ہوکر20-22 فیصد کی سطح پر آ جائے ۔تاہمرپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس منظرنامے کا انحصار جغرافیائی سیاسی کشیدگی ، غیر متوقع موسمیاتی واقعات اور اجناس کی عالمی قیمتوں میں غیر موافق ردوبدل سے جنم لینے والے منفی دھچکوں کی عدم موجودگی پر ہے۔

ای پیپر دی نیشن