آئی ایس آئی کی جانب سے چالیس سیاستدانوں کو رقوم دینے سے متعلق اصغرخان کی پٹیشن کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کےآغاز پراصغرخان کے وکيل سلمان اکرم راجہ نے دلائل ديئے کہ آئی ايس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کا بيان اس کيس کا محور ہےجبکہ يہ جمہوری عمل ميں مداخلت کا معاملہ ہے. سماعت کے دوران چيف جسٹس کے حکم پر اصغر خان کا سولہ جون انیس سو چھیانوے کا سابق چيف جسٹس سجاد شاہ کو لکھا گيا خط بھی پڑھا گيا۔ خط کے مطابق سابق آرمی چيف اسلم بيگ نے مہران بينک سےپندرہ کروڑ روپے نکلوائے اور يہ رقم انیس سو نوے کے اليکشن پراثرانداز ہونے کے لئے استعمال کی.نوازشريف نےپینتیس لاکھ جبکہ جماعت اسلامی نے پچاس لاکھ روپے ليے۔ نصيرمينگل کو دس لاکھ روپےملے جبکہ عابدہ حسين، جام صادق اور دیگر کو بھی رقوم دی گئیں۔ سلمان راجہ نے مزيد بتايا کہ اسد درانی نے بيان حلفی سميت تین دستاويزات جمع کرائيں جو ريکارڈ کا حصہ ہيں.چيف جسٹس نے ريمارکس ديئے کہ سابق آئی ايس آئی چيف ليفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی طرف سے کون آيا؟ ان کی موجودگی ضروری ہے.چيف جسٹس نے اسد درانی کو نوٹس نہ بھجوانے پربرہمی کا اظہاربھی کیا.چيف جسٹس نے اکرم شيخ سے استفسار کيا کہ کيا اسد درانی کيس ميں پيش ہوتے رہے جس پر اکرم شيخ کا کہنا تھا کہ اسد درانی اس کيس ميں پہلے متعدد بار پيش ہوچکے ہیں، انہوں نے مزيد کہا کہ اسلم بيگ،اسددرانی اور نصيراللہ بابرکے بيانات ان کیمرہ ریکارڈ کیے گئے تھے جس پر چيف جسٹس نے تینوں افراد کے بیانات سے متعلق سربمہر ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسد درانی کے بغیر کیس کی سماعت ممکن نہیں۔ اکرم شيخ نے عدالت کو بتايا کہ اسد درانی کولمبو گئے ہوئے ہيں اورپانچ یا چھ مارچ تک واپس نہيں آسکتے. جس پر عدالت نے کیس کی سماعت آٹھ مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے اسد درانی، وزارت دفاع اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔عدالت نےمہران بينک کے سابق سربراہ يونس حبيب کا ایڈریس معلوم کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔