اسلامک ٹیرر ازم۔ ٹرمپ کا بے بنیاد طعنہ

Feb 29, 2020

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

وزیر اعظم پاکستان عمران خان گزشہ برس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شر کت کے لئے امریکہ گئے تو انہوںنے کم و بیش چار فورمز پر اسلامک ٹیرر ازم کی اصطلاح استعمال کر نے پر اعتراض کیا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں، کونسل آف فارن ریلیشنز میں ، سی این این کے انٹرویو میں اور میڈیا ٹاک میں۔ ان کا کہنا تھا کہ اہل مغرب نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے اسلامک ٹیرر ازم کی اصطلاح کا استعمال شروع کر رکھا ہے حالانکہ ٹیررسٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے جناب عمران خان کی ان باتوں پر کان نہیں دھرے اور انہوں نے بھارتی دورے میں اسلامک ٹیرر ازم پر ایک لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ایک ایک کر کے اسلامک ٹیررسٹ کو ختم کر چکا ہے۔ انہوںنے ایرانی نیشنل گارڈز کے سربراہ سلمانی کا نام لیا۔ اسامہ بن لادن کا نام لیا۔البغدادی کا نام لیا اور جس کا نام ان کے ذہن میں آیا،ا نہوںنے اسے دہرا دیا۔ مگر وہ بھول گئے کہ جس داعش کو وہ ختم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں،اسی کو شام میں بشارالاسد کے خلاف لڑنے کے لئے امریکی کانگرس باقاعدہ مالی اور دفاعی امداد منظور کرتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے دلی میں ہندو ٹیرر ازم کا ننگا ناچ بھی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے جب یہ کہا کہ ٹیررسٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو دنیا کو یہ تشریح تسلیم کر لینی چاہئے ورنہ عالم اسلام جواب میں پوچھ سکتا ہے کہ کیا اسلامک ٹیررازم کے مقابلے میں مسیحی ٹیررازم کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے، ہندو ٹیررازم کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے اور یہیودی ٹیرر ازم کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے۔اور کمیونسٹ ٹیررازم کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے۔ میرا جواب ہے کہ عالم اسلام اس قسم کا الزام ہر گز عائد کرنے کو تیار نہیں۔ عالم اسلام اس موقف پر اصرار کرتا رہے گا کہ ٹیررسٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ نیوزی لینڈ میں جس کسی نے دہشت گردی کی ، وہ صرف اور صرف ٹیرر سٹ تھا۔ٹرمپ کی موجودگی میں دلی کے گلی کوچوں میں جن لوگوںنے دہشت گردی کاارتکاب کیا وہ صرف اور صرف ٹیررسٹ تھے۔امریکہ کے تعلیمی اداروں میںجو لوگ گن شاٹ چلا کر ہلاکتوں کا باعث بنتے ہی، ان کا کوئی مذہب نہیں وہ صرف اور صرف ٹیرر سٹ ہیں اور بس۔ کشمیر میں مسلمانوں کو بھارتی فوج دہشت گردی کا نشانہ بناتی ہے تو ا س کا واقعی کوئی مذہب نہیں ، وہ صرف اور صرف ٹیرر سٹ ہیں۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کو جو لوگ نشانہ بناتے ہیں وہ صرف ٹیررسٹ ہیں ،کوئی انہیں بدھ ٹیررسٹ نہیں کہتا۔ دنیا کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی بات پر دھیان دینا چاہئے اور اسلامک ٹیررسٹ کی گردان ختم کرنی چاہیے۔امریکہ جن لوگوں کو آج اسلامک ٹیررسٹ کہتا نہیں تھکتا،ایک زمانہ تھا کہ امریکی وائٹ ہائوس میں ان کے لیڈروں کو چائے کی ضیافت پر مدعو کیا گیا،۔ ان لیڈروںکی لمبی ڈاڑھیاں تھیں ۔ ان کے پائوں میں چپل تھے اور ان کے سروں پہ پگڑیاں تھیں۔ ان لیڈروں کو امریکی صدر نے اس امر پر خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مدعو کیا تھا کہ ان کی مدد سے امریکہ نے دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت روس کو شکست فاش سے دوچار کیا تھا اور اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔ یورپ میں بھی کمیونزم اور سوشل ازم کی علم بردار حکومتیں ٹوٹ گئی تھیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ دیوار برلن ٹوٹ گئی تھی۔ جن لوگوںنے یہ معرکہ مارا، ان کو امریکہ جہادی کہتا تھا۔ ٹیررسٹ نہیں کہتا تھا ۔یہ لوگ جہادی سے ٹیررسٹ کب کہلائے ۔ اس وقت جب امریکہ میںنائن الیون کے حوادث پیش آئے اور کوئی تین ہزار افراد موت کی لپیٹ میں آئے۔ ان تین ہزار افراد کی ہلاکت کا ذکر امریکہ ضرور کرتا ہے، ہر فورم پر کرتا ہے مگر امریکہ یہ نہیں بتاتا کہ ان تین ہزار ہلاکتوںکا بدلہ لینے کے لئے وہ کتنے لاکھ مسلمان شہید کر چکا ہے۔ عراق میں، افغانستان میں، سوڈان میں، لیبیا میں۔ لبنان میں، فلسطین میں۔ مصر میں ، یمن میںاور شام میں اور پاکستان جس کا کوئی تعلق نائن الیون سے نہیں تھا ۔ اس کے ہاں ساٹھ ہز رافراد شہید کر دیئے گئے۔
امریکہ کی عادت ہے کہ وہ جب اپنا کام نکلوا لیتا ہے اور جس کے ذریعے نکلواتا ہے پھر ان کی طرف سے ا ٓنکھیں پھیر لیتا ہے۔ اور انہیں اپنا دشمن نمبر ایک سمجھ لیتا ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ روس کے خلاف جہاد میں اسامہ بن لادن نے اپنی ساری دولت جھونک دی تھی۔ کیا یہ درست نہیں کہ حقانی گروپ نے سوویت روس کے خلاف جہاد میں نمایاں کردارا دا کیا تھا مگر یہ دونوں بعد میں ٹیررسٹ قرار پائے۔ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں ایک سرجیکل اسٹرائیک میں شہید کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ایبٹ آباد آپریشن ان کی زندگی کا تاریک تریں دن تھا۔ حقانی گروپ کے خلاف پاک فوج کو آپریشن کر نے کے لئے امریکہ نے اٹھارہ برسوں میں دبائو بڑھایا اور ڈو مور ڈو مور کا تقاضہ کیا۔ کیا یہ حقیت نہیں کہ امریکہ نے فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کو دہشت گرد کہا اور پھر اسی یاسر عرفات کو جنرل ا سمبلی ا جلاس سے خطاب کی دعوت بھی دی گئی۔ امریکہ کے معیار بدلتے رہتے ہیں۔ اس نے تو نیلسن منڈیلا کو بھی دہشت گرد کہا۔ مائوزے تنگ کو بھی دہشت گرد کہاا ور ہو چی منہ کو بھی دہشت گرد کہا اور پھر یہی امریکہ ان لیڈروں کے ساتھ مصافحہ کرتا دکھائی دیا۔
میں خود گواہ ہوں کہ امریکہ نے اسامہ بن لادن کے خلاف دہشت گردی کے پروپیگنڈے کا آغاز کس طرح کیا۔ سن دوہزار میں بھارت اور پاکستان کے چار چار ایڈیٹر امریکی وزارت خارجہ کی دعوت پر گیارہ روزہ دورے پر گئے تو ہر جگہ ایک ہی راگ سنائی دیا کہ ایٹمی، کیمیا اور جراثیمی ہتھیار دہشت گردوں نے حاصل کر لیے ہیں۔ جاوید صدیق گواہ ہیں کہ جب یہی بات پنٹیگان میں امریکی جرنیلوں نے دہرائی تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ایٹمی ہتھیار غلیلوں سے چلائے جا سکتے ہیں ،واضح رہے کہ ا ن دنوں ابھی ٹیکٹیکل ہتھیار امریکہ سمیت دنیا کے کسی ملک نے نہیں بنائے تھے۔ میرے اس سوال پر امریکی جرنیلوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے اور جب انہوں نے اسامہ کا نام لے کر عالم اسلام کو مطعون کرنا شروع کیا تو میں نے انہیں ٹوک دیا اورکہا کہ اسامہ بن لادن آپ کاا ٓدمی ہے ۔ا س نے آپ کے کہنے پر روس کے خلاف جہاد میں پیسہ لگایا۔ آپ لوگ اس کا الزام ہمیں مت دیں۔ کس کو یاد نہیں کہ صدام حسین پر امریکہ نے یہی الزام عائد کیاکہ ا س کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ یہ الزام برٹش انٹیلی جنس کے ایک افسر کی خفیہ رپورٹ کی روشنی میں لگایا گیا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ ا س افسر کی لاش لندن سے باہر کھیتوں میں گلی سڑی ملی۔ اس کا کیا مطلب تھا کہ اس شخص کو ہی ملیامیٹ کر دیا گیا جو یہ کہہ سکتا تھا کہ اس نے جھوٹی رپورٹ تیار کی ہے۔ یہ شخص تو مارا گیا مگر دنیا کو یاد ہے کہ برٹش وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے سر عام معافی مانگی کہ ا س کی حکومت نے یہ جھوٹی رپورٹ تیار کی تھی۔ دنیا جانتی ہے کہ جب صدام حسین کو پکڑا گیا ورا س کے ہاتھ میں ایک پستول تھا اور وہ اس کو بھی نہ چلا سکا۔ صدام حسین کے پاس ایٹمی اسلحہ ہوتا تو وہ امریکی فوج کے خلاف ستعمال کرتا مگر جب اس کے پاس کچھ تھا ہی نہیں تو وہ سوائے بڑھکیں مارنے کے کیا کر سکتا تھا۔ یہی حال اسامہ کا ہوا۔ اسے ایبٹ آباد کے گھر میں قابو کیا گیا تو اس نے بھی امریکی فوجیوں پر ایک گولی تک نہیں چلائی۔کہاں گیا اس کا ایٹمی اسلحہ اور مجھے افسوس ہے ایک پاکستانی صحافی پر جس نے افغان امریکی جنگ کے دوران افغانستان جا کر اسامہ بن لادن کا ایک مبینہ انٹرویو کیا جس میںاسامہ نے دعوی کیا تھا کہ وہ ایٹمی جراثیمی اور حیاتاتی اسلحے سے امریکوں کو راکھ بنا دے گا، یہ انٹرویو پاکستان کے ایک انگریزی اخبار کی ہیڈ لائن بھی بنا جس کی آڑ میںامریکہ نے افغانستان کو تورا بوتورا بنانے کے لئے ڈیزی کٹر پھینکے اور مدر آف آل بمز بھی استعمال کئے۔ تو را بورا کے پہاڑ سرمہ بنا دیئے گئے مگر ڈرامہ یہ رچایا گیا کہ اسامہ وہاں سے بچ نکلا اور ایبٹ آباد کے ایک بنگلے میں پر تعیش زندگی بسر کررہا ہے۔ امریکہ کے جھوٹے دعوے دیکھتے جائو۔ بے بنیاد الزامات سنتے جائو مگر اس وقت عالم اسلام میں ایک لیڈر ایسا ضرور ہے جو یہ کہنے کی جرأت رکھتا ہے کہ اسلامک ٹیرر سٹ کی اصطلاح غلط ہے۔ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان نے ایٹم بنایا تو اسے اسلامک بم کا نام دیا گیا۔ دنیا میں اور بھی ایٹم بم ہیں کسی کو ہندو بم، کمیونسٹ بم، یہودی بم اور مسیحی بم نہیں کہا جاتا۔ یہ عالم اسلام کی حقیقت پسندی ا ور فراخدلی ہے کہ وہ کسی کو مطعون کرنے کے شوق میںمبتلا نہیں ہے۔
ٹرمپ کو فارغ وقت میں عمران خاں کی جنرل اسمبلی کی تقریر ایک بار پھر سن لینی چاہئے۔

مزیدخبریں