انقرہ+صنعا+واشنگٹن +ماسکو(شنہوا+انٹرنیشنل ڈیسک)شام کے صوبے ادلب میں شامی فضائیہ کی کارروائی میں 33 ترکی فوجی ہلاک ہوگئے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ادلب کے گورنر نے شامی فضائیہ کی جانب سے فضائی کارروائی میں 33 ترک فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ ہفتوں میں ترکی کی جانب سے ادلب میں ہزاروں فوجی تعینات کرنے کے بعد یہ ایک دن میں ترک فوجیوں کی ہلاکت کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔برطانوی میڈیا کا بتانا کہ شامی افواج کی کارروائی میں کئی ترک فوجیوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں جس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔برطانوی میڈیا کے مطابق ادلب میں ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ترک صدر طیب اردگان نے اہم سکیورٹی اجلاس طلب کیا جو دو گھنٹے تک جاری رہا۔اجلاس کے بعد ترک فوج نے شامی اہداف کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا جبکہ ترک وزیر دفاع اور عسکری حکام فوری طور پر شامی فوج کے خلاف کارروائی کی ہدایت کیلئے شامی سرحد پر روانہ ہوگئے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری سیز فائر کا مطالبہ کیا ہے۔اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ نے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا اپنے نیٹو کے اتحادی ترکی کے ساتھ کھڑا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے شامی افواج کی کارروائی کو جرم قرار دیا اور اس کے فوری خاتمے کا بھی مطالبہ کیا۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے بھی شام اور روسی افواج کی جانب سے اندھا دھند فضائی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ترکی کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر کا کہنا تھاکہ ترکی نے شامی حکومت کے اس طرح کے حملوں کا جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے، شامی حکومت کے تمام معلوم اہداف زمینی اور فضائی یونٹس نے نشانے پر لے رکھے ہیں۔دوسری جانب جمعے کے روز ترکی کی درخواست پر نیٹو کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ممالک کے مندوبین شمال مغربی شام میں شامی فورسز کی فضائی کارروائی میں 33 ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ترکی سے یونان میں داخلے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ اسی تناظر میں یونان نے اپنی سرحدی نگرانی سخت کر دی ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل زینس سٹولٹن برگ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ نیٹو ممالک کے سفیروں کا اجلاس نیٹو معاہدے کے آرٹیکل چھ کے تحت طلب کیا گیا۔ نیٹو معاہدے کی اس شق کے مطابق کوئی بھی رکن ملک اپنی جغرافیائی حدود اور سلامتی کو لاحق خطرات کے تناظر میں دیگر رکن ریاستوں کی مشاورت اور مدد طلب کر سکتا ہے۔ادھرروس نے کروز میزائلوں سے لیس دو بحری جنگی جہاز بحیرہ روم میں شامی ساحلی علاقے میں بھیج دیئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ جنگی بحری جہاز بحیرہ اسود سے بحیرہ روم بھیجے گئے ہیں۔ جنگی بحری جہازوں کی تعیناتی شامی صوبے ادلب میں دمشق فضائی کارروائی میں 33 ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے تناظر میں عمل ہیں آئی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ترکی ادلب میں حکومت مخالف باغیوں کی مدد میں مصروف ہے، جب کہ شامی فورسز اس علاقے میں مسلسل پیش قدمی کر رہی ہیں۔علاوہ ازیںماسکو حکومت کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردگان اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے ٹیلیفونک گفتگو میں شامی صوبے ادلب میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان بہتر رابطہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔ ادلب میں ایک شامی فضائی کارروائی میں 33 ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد صدر اردگان نے اپنے روسی ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس بات چیت میں دونوں رہنماؤں نے حالات کو معمول پر لانے کے لیے اضافی اقدامات پر اتفاق کیا۔ دونوں رہنماؤں نے ترک فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی پر بھی تشویش ظاہر کی۔