ذوالفقار علی بھٹو کے دوراقتدار میں مفاد عامہ کیلئے جو اہم اقدامات اٹھائے گئے ان میں سے ایک "جنرک نیم" (GENERIC NAME)سے ادویات کی فروخت بھی تھا۔یہ قدم بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد مرحوم نے اٹھایا جو اس وقت وفاقی وزیر صحت تھے۔اس سکیم کے تحت کوئی بھی دوائی برانڈ کی بجائے اس نام سے فروخت ہوتی جس طرح کا اس میں اصل جوہر یعنیSALTہوتا ۔اس سے دوائی بنانے والوں سے لے کر فروخت کرنے والے تک ہل کررہ گئے کیونکہ اس طرح دوائی کی قیمتیں آدھی سے بھی کم ہوکر رہ گئیں۔ 1976ء میں "ڈرگ ایکٹ"کے نام سے ایک قانون بھی بنایا گیا۔جس ک تحت عدالتیںبھی عوام کو انصاف مہیا کررہی ہیں۔گوجرانوالہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈویژن ہے ۔اسکے چھ اضلاع ہیں۔ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہائو الدین، نارووال اور حافظ آباد۔آبادی بھی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہوگی۔تقریبا دس سال قبل گوجرانوالہ ڈویثرن میں ایک ڈرگ کورٹ قائم کی گئی ۔ جہاں بہت سے لوگ اس عدالت سے انصاف حاصل کررہے ہیں ۔شروع شروع میں جیسے تیسے یہ عدالت کام کرتی رہی اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کا عملہ بھی پورا ہوا،عدالت اور ریاست کی رٹ بھی قائم ہوئی اور کام بخوبی سے چلتا رہا۔آغاز میں وکلاء صاحبان میں سے ہی چیئر مین ڈرگ کورٹ مقرر کیا جاتاجو مدت معاہدہ تک کام کرتا،جیسے ہماری بار کے تقی بریار ن لیگ کے کوٹے سے چیئر مین رہے۔ جنہوں نے مدت معاہدہ ختم ہونے پر گوجرانوالہ سے ہی تعلق ختم کردیاپھر وکلاء کی بجائے سیشن جج صاحبان کو چیئر مین مقرر کیاجانے لگا۔اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چیئر مین کیسے مقرر ہوا۔اصل چیز تو کارگردگی ہوتی ہے جو گوجرانوالہ ڈویثرن کی ڈرگ کورٹ کے تمام چیئر مین صاحبان نے دیانتداری اور محنت سے اداکی ۔خاص طورپر اولین چیئر مین چوہدری اشرف جو ہمارے سیاسی ساتھی بھی رہے۔ایک چیئر مین امجد علی خاں اکثر وپیشتر عطائی ڈاکٹروں سے پوچھ بھی لیتے تھے کہ کلینک سربمہر ہونے کے بعدوہ آج کل کیاکررہے ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ ایک ڈاکٹر صاحب "چنگ چی"رکشہ چلارہے تھے۔ایک اور ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ تندور پر نان لگانے کاکام کررہے ہیں ۔ایک دندان ساز نے اپنے نجومی ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ریلوے اسٹیشن پر لوگوں کے ہاتھ دیکھتا ہے۔ ایک میڈیکل سٹو روالے نے تو کمال ہی کردیا جب اسے پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی جانے لگی تو اس کی ماں نے عدالت میں بین کرنا شروع کردیئے کہ خدا کیلئے رحم کریںچیئر مین امجد علی خاں نے جب اس عورت کے شناختی کارڈ پر نظر دوڑائی اور دو تین سوال کئے تو معلوم ہوا کہ وہ ماں بیٹانہیں ہیں۔بلکہ اسے دوسو روپیہ دے کر جرمانہ کم کروانے کیلئے لایا گیا تھا۔ غرضیکہ اس طرح کے ڈرامے اکثر دیکھنے کوملتے ،ڈرگ کورٹ کایہ المیہ رہا کہ اگر کسی جج کا تبادلہ ہوگیا تو عدالت ویران ہوگئی ۔کئی کئی ماہ تک نئے جج صاحبان کے عدالت نہ سنبھالنے سے کئی لوگ چھوٹے چھوٹے معاملات میں سالوں جیلوں میں رہے۔ اس وقت بھی میری اطلاع کے مطابق کچھ آدمی ایک سال سے زائد عرصہ سے جیل میں بندہیں اورڈرگ کورٹ سے دادرسی کے منتظر ہیں۔کئی ایک غیر معینہ کیلئے ضمانت قبل از گرفتاری کی سولی پرلٹک رہے ہیں۔ باقاعدہ طور پر صاف ستھرا،ا ایماندارنہ اور لائسنس یافتہ فارمیسی/میڈیکل سٹور کے مالکان،دواساز ادارے اور دیگر متعلقہ لوگوںکے کاروبار تباہ ہوگئے۔جبکہ دوسری طرف جعل سازوں زائد المعیاد ادویات فروخت کرنے والوں اور عطائی ڈاکٹروں کے وارے نیارے ہوگئے۔ڈرگ انسپکٹر صاحبان بھی کارروائی کرنے میں سست ہوگئے کہ جج صاحب تو ہیں نہیں کہاں تک اس مقدمے کے پیچھے پیچھے پھریں گے۔اب تو ڈرگ انسپکٹر،ان کے اہلکاران اور ڈرگ کورٹ کی بہت ضرورت ہے۔کیونکہ "کرونا وائرس "سے بچائو کے لئے دس روپے والاماسک بازار میں پچاس سے لے کرسوروپے تک بیچا جارہا ہے۔ایک تو ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف اسی بہانے اسپرین سے لے کرجان بچانے والی ادویات کی قیمتیں کچھ حرام خور کمپنیوں اور فروخت کرنے والوں نے باہمی گٹھ جوڑ سے مصنوعی طور پر بڑھائی ہیں۔معاشرے میں توازن ہوتو وہ پرامن رہتا ہے۔پھلتا پھولتا ہے، عزت پاتا ہے۔معاملات تو اور بھی ہیںمگر کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ گوجرانوالہ کی ڈویثرنل ڈرگ کورٹ تین ماہ سے زائد عرصہ سے کسی جج کاانتظار کرتے کرتے ویرانہ بن چکی ہے۔کسی معز ز جج کو چیئر مین بنا کربھیجیں کہ وہ اس ویرانہ خانے کو آبادکرسکے۔