سچی بات تو یہ ہے کہ ملک کے گرم و سرد چشیدہ سیاستدانوں میں ممتاز اہمیت کے حامل پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین اپنے حلیفوں اور حریفوں کے بارے میں چونکا دینے والی باتیں نتائج سے پے پرواہ ہو کر کہہ دینے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دوسروں کیلئے انکی ایسی باتیں بلاشبہ لمحۂ فکریہ مہیا ضرور کرتی ہیں۔ مگر دل دکھانے والی نہیں ہوتیں اِسی لیے انکے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ انکے منہ سے نکلی ہوئی باتیں زبان زدعام ہونے کے باوجود سیاسی فضا میں کسی قسم کی تلخی پیدا کرنے یا کسی غلط فہمی کا سبب نہیں بنتیں، جیسا کہ گزشتہ دنوں ملکی صورت حال کو بنظرِ عمیق مطالعہ کرنے کے بعد حرمین شریفین کی زیارت سے واپس وطن آتے ہی انہوں نے جہاں یہ مژدہ جانفزا بھی قوم کو سنایا کہ انہوں نے دیار حرم میں جہاں ملک و قوم کی بہتری کیلئے دعا کی وہاں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کیلئے بھی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو ان کی نیک نیتی کی وجہ سے اس منصب تک پہنچایا۔ اس حقیقت کا کھلے لفظوں میں اظہار کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین نے کس خوبصورتی کے ساتھ صحیح اور سچی بات کہنے سے بھی گریز نہ کیا اور کہا کہ انہوں (عمران خان) نے سیاسی ہیرا پھیری نہیں سیکھی اس کے ساتھ ہی انہوں نے کسی نظریہ اور مشنری جذبے کے بغیر محض محصوص مفادات کے حصول کی خاطر سیاست کو بھول بھلیوں میں تہمت اور دشنام طرازی کی روایتوں کے ’’امینوں‘‘ کی ذہنیت ان الفاظ میں آشکار کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ کسی کے صحیح اور نیک مشورے کو بھی مخالفت کے زمرے میں پیش کر کے اسے ہوا دیتے ہیں۔میں ذاتی طور پر عمران خان کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ اگر آپ تین باتوں کو پلے باندھ لیں تو اللہ تعالیٰ آپ کی راہوں کی مشکل مزید آسان کر دے گا۔ اولاً چاپلوسوں اور چغل خوروں سے دور رہیں۔ انہیں اپنے نزدیک نہ آنے دیں۔ اپنے اردگرد منافقین کی نشاندہی کریں۔چودھری شجاعت حسین نے دیار حبیبؐ میں مقام ابراہیم کو گواہ بناتے ہوئے حق و سچ کے جس پرچم کو بے خطرہ بلند کیا ہے۔ انکی باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ انہوں نے جن ’’خدشات‘‘ یا امکانات کی دکھی دل کے ساتھ نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے ایسے خدشات کے سر اٹھانے کی رمق کو محسوس کیا ہو گا۔ چاپلوسوں اور چغل خوروںکے عزائم کیا اور پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟ اگر انہوں نے چاپلوسی اور سیاسی حریفوں کے مابین دراڑیں ڈالنے کیلئے لگائی بجھائی کا کام دھوم دھڑکے سے شروع کر رکھا ہے تو اللہ تعالیٰ نے جو منصب وزیر اعظم عمران خان کو ان کی نیک نیتی کے صلے میں عطا کیا ہے چاپلوسوں اور چغل خوروں کے مذموم غرائض کے ہاتھوں اس منصب کو گزند پہنچنے کا کہاں تک احتمال ہو سکتا ہے؟ اقوام عالم کی تاریخ تو ایک طرف رہی خود ارض وطن کی سیاسی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ ایوان اقتدار میں مسندِ اقتدار نیک نیت ہستیوں کے اردگرد چاپلوسوں اور لگائی بجھائی کرنے کے ماہر مخصوص مفادات کے حامل لوگوں نے اپنی ناپاک سرگرمیوں سے نیک نام حکومتوں کے اقتدار کو زمین بوس کرا دیا۔ اس کے ثبوت بیسویں صدی کی نویں اور دسویں دہائی میں قوم اور ملکی مفادات کی حامل حکومتوں کے تہہ و بالا ہونے سے ملتے ہیں۔ بلاشبہ گئے دور میں ایسی محب وطن حکومتوں کے دور میں بوجوہ صحیح الدماغ اور درد دل رکھنے والی حکومتوں کو چاپلوسی اور لگائی بجھائی کرنے والی ’’دیمک‘‘ کی اس طرح نشاندہی نہیں کی گئی تھی اور ماضی میں اس دور کے مخصوص حالات کی بنا پر شاید ایسا ہونا ممکن بھی نہ تھا۔ مگر اب تو ایک ایسی جہاندیدہ سیاسی شخصیت نے نیک نیت حکومتوں کو دیمک کی طرح چاٹنے والے عناصر کی کھلے لفظوں میں نشاندہی کر دی ہے، جن کی سربراہی میں ان کی جماعت خود اس سیاسی جماعت کی اہم ترین حلیف بھی ہے جسے اکثریتی پارٹی ہونے کے علی الرغم اپنے چیئرمین عمران خان کی نیک نیتی کے ثمر کے طور پر ملک کے چیف ایگزیکٹو کا منصب نصیب ہوا ہے۔ انکے سب سے بڑے حلیف اور بلاشبہ حقیقی بہی خواہ نے دو ٹوک الفاظ میں جن ممکنہ خطرات سے نام لے کر عمران خاں کو متنبہ کرنے کا حق ادا کیا ہے۔ چودھری شجاعت حسین عصر حاضر میں ملکی بحر سیاست کے باخبر شناور ہیں بحرِ سیاست کی طلاطم خیز موجوں تلے یقیناً انہوں نے جو محسوس کیا ہے وہی اپنے لفظوں میں بیان کر کے سیاسی حلقوں کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ اب ایسے خدشات سے نمٹنا اور مخصوص عناصر کے مذموم عزائم کے آگے بند باندھنا ایوانِ اقتدار کے مکینوں بالخصوص برسراقتدار قیادت کا کام ہے۔ چودھری شجاعت حسین جیسے بالغ نظر اور اپنی ساری سیاسی زندگی میں سیاست کی فضا میں تحمل ، بردباری، وضعداری اور صبر و صلح جوئی کے دامن کو پکڑ کر سرگرم عمل ہونے کی راہ پر گامزن سیاستدان کی باتوں کو عین ممکن ہے وہی عناصر برسراقتدار قیادت کیخلاف قرار دیں اور اس قسم کے پروپیگنڈے کو ہوا دے کر ایوان اقتدار کے مکینوں کی نظروں سے خودکو محفوظ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر چاپلوسوں ، چغل خوروں اور منافقین کے اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہونے کا راستہ ہموار کرنے میں مدد ملے گا۔ اس صورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے چیئرمین وزیراعظم عمران خاں اور انکے حلیفوں کو مل کر لائحۂ عمل مرتب کرنا ہو گا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ پوری کتھا ایک سابق وزیر اعظم کا دردمندانہ پیغام ہے۔ موجودہ وزیر اعظم کے نام!!