قطر میں امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر دستخط کے بعد اسے تاریخی معاہدہ قرار دیا گیا جو افغانستان میں 19 سالہ جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گا۔چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائیگا۔طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ معاہدے کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔معاہدے کی تفصیلات نکات کی صورت میں اس طرح سے ہے، امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیرملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکدار، شہری، نجی سیکیورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں 8 ہزار 600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ تمام امریکی اور اتحادی 5 ملٹری بیس سے اپنے فوجی ہٹا دیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ساڑھے نو ماہ کے دوران ملٹری بیس سمیت افغانستان کے تمام حصوں سے باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے روز یعنی 10 مارچ 2020 کو طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی قید میں موجود ایک ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائیگی۔ انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا، افغانستان پر عائد تمام پابندیوں سے متعلق نظر ثانی شروع کردے گا اور 27 اگست 2020 تک پابندی ختم کرنے کا پابند ہوگا۔ انٹرا افغان مذاکرات کے ساتھ ہی امریکا، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کرکے 29 مئی 2020 تک اس امر کو یقینی بنائے گا کہ افغانستان کے خلاف عائد تمام پابندیاں ختم کردی جائے۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی سیاسی و ریاستی خود مختاری کے خلاف بیان بازی سے گریز رہیں گے۔ طالبان، اپنے یا کسی بھی گروہ یا انفرادی شخص بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہو۔ طالبان واضح طور پر پیغام دیں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سیکیورٹی رسک دینے والوں کے لیے افغانستان میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی عسکری ٹریننگ، اور جنگجوں کی بھرتی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کی پاسداری کریں گے۔ طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطرہ سمجھے جانے والے شخص، گروہ اور تنظیم کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت یا قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔