امیر محمد خان
تقریبا کالعدم تحریک انصاف ( حالیہ سنی اتحاد کونسل ) کے بانی رکن صدر پاکستان محترم عارف علوی نے ایک مرتبہ پھر اپنی جماعت کا ساتھ دیتے ہوئے عام انتخابات میں منتخب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس بلانے پر رخنہ کھڑا کردیا ہے جس کے تحت آنے والی حکومت رک تو نہیں سکتی مگر صدر عارف علوی کی اپنی جماعت سے محبت کا اظہار ضرور کرسکتی ہے ، چونکہ خصوصی نشستوں کا اعلان تو سرحد اور بلوچستان میں بھی نہیں ہوا مگر گورنر سرحد نے اجلاس بلا لیا ہے اور وزارت اعلی کیلئے گنڈا پور حلف اٹھانے کیلئے اسمبلی کے دروازے پر کھڑے حلف اٹھانے کے انتظار میں بیٹھے ہیںاور پی ٹی آئی کو تسلیم نہ کرنے والے مولانہ فضل الرحمان کو خدا نا خواستہ پاگل خانہ بھیجنے کے متمنی ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ خصوصی نشستوں کا اعلان کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے ۔ اپنی جماعت سے اتنی محبت کاش مرحوم صدر فاروق لغاری کو بھی ہوتی جنہوں نے اپنی جماعت پی پی پی حکومت کو اسوقت برخواست کردیا تھا اور پی پی پی سے محبت کو اپنی آئینی ذمہ داری پر حاوی نہ ہونے دیا تھا ۔ جبکہ صدر کا حلف اٹھانے کے بعد انہوںنے مرکز میں اپنی جماعت کو کہہ بھی دیا تھا کہ آٹھویں ترمیم ختم کردیں تاکہ حکومت برخواست کرنے کی صدر کی کسی بھی لمحے خواہش کااظہار کارآمد نہ ہو۔ صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے، گو اس کا تعلق سیاسی پارٹی سے ہی ہو مگر اس نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ موجودہ صدر اپنی غیر جانبداری کئی معاملات میں برقرار نہیں رکھ سکے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان جب وزیراعظم تھے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد شہباز شریف وزیراعظم منتخب کیے گئے۔ صدر عارف علوی نے شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا، جس سے دنیا بھر میں پاکستانی جمہوریت کا مذاق بن گیا تھا شہباز شریف سے حلف نہ لیکر صدر علوی نے پی ٹی آئی کے کارکنوں یا خان کو تو خوش کردیا مگر جگ ہنسائی صدر عارف علوی کی ہوئی کہ وہ پاکستان کے صدر نہیںایک جماعت کے صدر ہیں اور اسکا اظہار وہ مسلسل کررہے ہیں ۔ وہ کتنے اصولی ہیں اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انکی آئینی طور پرمدت صدارت 9 ستمبر 2023 ءکوختم ہوچکی ہے اصولی تو جب مانے جاتے کہ وہ اس دن ایوان صدرسے چیئرمین سینٹ سے درخواست کرتے کہ وہ قائم مقام صدر بن جائیںمیںگھر چلا مگر اسوقت انکے قانون اور ضمیر نے جوش نہ مارا اور وہ اوﺅر ٹائم پر تاحال ایوان صدر میں موجود ہیں ۔ ۔ صدر کا تعلق اگر کسی سیاسی جماعت سے ہو تو اس کی ہمدردیاں اس پارٹی کے ساتھ ہونا فطری امر ہے لیکن آئین کا تقاضا ہے کہ وہ امور مملکت غیر جانبداری سے انجام دیں۔ وہ وفا ق کی علامت ہیں،
ریاست کے سربراہ ہیں اور فورسز کے سپریم کمانڈر ہیں، انھیں ہر قدم سوچ کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنی پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھانا چاہتے ہیں تو پھر انھیں صدارت کے منصب سے الگ ہو جانا چاہیے تاکہ اس عہدے کے ساتھ جڑی عزت و توقیر پر حرف نہ آئے۔ پاکستانی عوام نے انکی اپنی جماعت سے محبت کا اظہار دیکھا ہے جب پی ٹی آئی کے احتجاج کے زمانے میں شارع پر کھڑے ہدایات جاری کررہے تھے ”کہ فلاں سڑک سے کسی گاڑی کو نہ گزرنے دینا ، پور ا ٹریفک بند کردو“ وغیرہ وغیرہ ۔ دراصل روز اول سے ہی سابقہ تحریک انصاف ( حالیہ سنی اتحاد کونسل ) نے اپنا نعرہ ہی توڑ پھوڑ رکھا ہے ، اسکے لئے انہوں نے شیخ رشید کی خدمات مستعار لی تھیں اپنے تباہ کن نظرئیے کے ذریعے اس ملک کے نوجوانوں کا ذہن پرگندہ کیا ہے پی ٹی آئی کے حمائتیوں کا دعوی ہے کہ پاکستان میں یہ سب کچھ ستر سالوںمیںنہ ہوسکا جسطرح انہوںنے ریاست اور اداروں کو گندہ کیا ہے ، ماشااللہ کیا خوب نظریہ ہے ۔ اسی نظرئے کو پروان چڑھایا گیا اور اسکا نتیجہ 9 مئی کی صورت میںظہور پذیر ہوا مگر افسوس کہ ہمارے قوانین کی سست روی اور کمزوری کی بناء9 ماہ سے زائد ہونے کے باوجود عسکری اداروںپر حملہ آور ہونے کے خلاف کچھ نہ ہوسکا ، مثال اس قصے کی ہے کہ جج کو شکائت آتی ہے کہ میرا تندور فلاں نے توڑا ہے ، جج کا فیصلہ ہوتا ہے دونوں حریفوں کو کہ ”ایک حریف کو کہا جاتا ہے تندور نہ توڑ، دوسرے کو حکم ہوتا ہے کہ تو بنائے جا “9مئی کو کچھ تو ہوا ہے کروڑوں عوام اور دنیا نے دیکھا ہے اسلئے اگر کسی کو ناجائز گرفتار کیا گیا ہے جو کہ ممکن ہے مگر ثبوتوں کے ساتھ موجود دہشت گردوں کو معافی کی کوئی گنجائش نہیں ، نہ ہی سزاﺅںمیں تاخیر کی کوئی گنجائش ۔اس جماعت کے ہر اقدام سے ملک دشمنی عیاںہے دھرنوںمیں بجلی کے بل پھاڑنے ، بل ادا نہ کرنے کی ، بیرون ملک پاکستانیوںکو بنکوںکے ذریعے رقم پاکستان نہ بھیجنے کی ہدایات، غیر ملکی سرمایہ کاروں ، غیر ملکی اہم شخصیات کو پاکستان کا دورہ نہ کرنے کی ہدایات اس وقت بھی آئی ایم ایف کو خط کہ قرض نہ دینا پاکستان میں انکے علاوہ سب کے سب ہی چور اور ڈاکو ہیںرقم ڈوب جائے گی ، اور یہ ہی سلسلہ آج بھی ہے یہ اچھی منطق ہے خان کی ایک طرف آئی ایم ایف کو خط لکھ کر کہہ رہے ہیں کہ قرضہ نہ دو پاکستان کو۔ کیونکہ جب تک معیشت بہتر نہیں ہو گی قرض واپس کون کرے گا اور دوسری طرف خود ہی غیر ممالک سے آنے والے سرمایہ کاروں کو بھی ڈرا رہے ہیں کہ یہاں مت آﺅ۔ انہی کی مہربانی کی وجہ سے تارکین وطن کی طرف سے ترسیلات زر میں کمی کا سامنا ہے۔ اب جب خود پاکستانی معیشت کا بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے تو دوسروں کو کیوں الزام دیں۔ کم از کم اب خان جی ملک کی حالت پہ رحم کھائیں اور بیرون ملک وطن کی عزت اور ساکھ داﺅپر نہ لگائیں۔ اختلافات اپنی جگہ سیاست اپنی جگہ ملک کی عزت اور معیشت اور وقار کا تقاضہ یہ ہے اس پر آنچ آنے نہ دی جائے، سوشل میڈیازہریلے پراپیگنڈے یا جماعت سے متاثر 2024 ء انتخابات میںنشستیں ملی ہیں تو اسمبلی میںبیٹھیں ، ملک کی تعمیر و ترقی میں حکومت کا ہاتھ بٹائیںحزب اختلاف بھی جمہوریت کا حصہ ہے جسے ہم نے مذاق بنادیا ہے سنجیدہ اور محب وطن حزب اختلاف کسی بھی حکومت کو غلط کام سے روک سکتی ہے پھر موقع ملے تو حکومت سنبھالیں، کوئی بھی حکومت قیامت تک رہنے کی اہل نہیں ہوتی جبکہ خان کی جماعت تو یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ اب حکومت کرنا ہمیشہ کیلئے انکا حق ہے ۔ آئی ایم ایف کو تازہ خط واقعی قابل اعتراض ہوا تو اس پر قرار واقعی ایکشن لیا جانا چاہیے کیوں کہ سب سے پہلے پاکستان‘ اور کوئی بھی پاکستان سے زیادہ مقدم نہیں۔ جو اپنے کو یا کسی کو پاکستان سے زیادہ اہم سمجھتا ہے اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے پی ٹی آئی والے بھی اس حقیقت کو جلد تسلیم کر لیں گے کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں ۔
اب ہوش سنبھالنے کا وقت ہے
Feb 29, 2024