سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
پاکستان میں لولی ، لنگڑی جمہوریت جس الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آرہی ہے ،دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ یہ کامیاب و کامران ہو ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پا رٹی کا اتحاد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہو تے ہوئے ہوا تھا ،اور پیپلز پا رٹی کی حکومت قائم ہو ئی تھی اور مسلم لیگ ن بھی اس حکومت میں شامل ہو ئی تھی لیکن بعد انھوں نے وزارتیں چھوڑ دیں تھیں اور حکومت کا ساتھ تو دیتے رہے تھے ،لیکن اس مرتبہ پیپلزپا رٹی نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،کابینہ پوزیشن لینے سے انکار کیا ہے ،لیکن ساتھ ہی حکومت کا ساتھ دینے کا بھی اقرار کیا ہے۔پیپلز پا رٹی نے واضح پالیسی اپنائی ہے کہ حکومت کو ووٹ دیے جائیں گے اور ان کا ساتھ بھی دیا جائے گا ،اور ان کی مخالفت نہیں کی جائے گی لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے لیے ایک الگ جگہ بھی قائم رکھی ہے۔اللہ کرے کہ شہباز شریف کی حکومت کامیاب ہو اور پنجاب سے نکل کر پورے ملک کے لیے کام کرے اور پورے ملک کی ترقی پر توجہ دیں کیونکہ یہ موجودہ حالات میں بہت ضروری ہے۔کیونکہ ماضی میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کا فوکس پنجاب رہا ہے اور اس کی مثال موٹر وے پراجیکٹ ہے جو کہ اصولی طور پر بندر گاہ سے شروع کی جانی چاہیے تھی اور لیکن ملک کے وسط سے اسلام آباد اور لاہور کے درمیان شروع کی گئی اور اس طرح سے شاید وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکے جو کہ ہونے چاہیے تھے ،اب جاکر اتنے برسوں کے بعد موٹر وے کی ایک شکل نظر آرہی ہے جو کہ ملک کے دیگر علاقوں تک پھیل رہی ہے ،لیکن اب بھی اس تمام منصوبے میں بلوچستان غائب ہے ،اور اس صورتحال کو اب تبدیل ہوجانا چاہیے ،ایک طرف سے سکھر سے اور دوسری جانب سے ملتان سے بلوچستان کو بھی مو ٹر وے کے ساتھ لنک کیا جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے ،بہر حال یہ تو ماننا پڑے گا کہ موٹروے نے ملک میں ٹرانسپورٹ کلچر کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور اب اس حوالے سے نئی نئی جدتیں سامنے آرہی ہیں ،بسوں میں پر سلیپر بسز بھی ملتی ہیں اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اس نئی جہت کا آغاز بھی بلوچستان سے ہی ہو ا تھا۔بلوچستان کو یقینی طور پر اس کا حق ملنا چاہیے۔بہر حال موٹر کلچر عمدہ رہا ہے اور اس نے یقینا ایک انقلاب بر پا کیا ہے اور اس شعبے میں بہت بہتری لائی گئی ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے ملک کو موٹر وے کے ساتھ لنک اپ کیا جائے کیونکہ اگر پورے ملک کو اس کے ساتھ لنک اپ کیا جائے گا تو ہی ملک مزید متحد ہو گا اور معیشت کی بھی بہتری ہو گی۔ہمیں اس سلسلے میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔کینیڈا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کینیڈا کو صرف اور صرف اس کی ریلوے نے متحد رکھا ہوا ہے ،اور یہ بات حقیقت ہے کہ اگر کسی بھی ملک کو مواصلات کے نظام سے جوڑ دیا جائے تو اس کے عوام کے درمیان باہمی اتحاد میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔موٹر وے کے دائرہ کو پھیلانے کی ضرورت ہے ،ریل کے نظام کو بھی ترقی دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس نظام کا بھی برا ہی حال ہے اور بولان ایکسپریس جو کہ کوئٹہ اور کراچی کے درمیان ریل لنک ہو ا کرتی تھی وہ بھی عرصہ دراز سے بند ہے ،پاکستان کو جوڑنے کی ضرورت ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے اسی میں ملک کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔ایک سرکولر ریلوے بنانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے بھی بلوچستان جانا ہی پڑے گا کیونکہ اس کے بغیر کام نہیں چلے گا ،پورے ملک میں ایک سرکولر ٹرین بنائی جائے کیونکہ بہر حال یہ ہی وقت کا تقاضا ہے اور معیشت کے لیے بھی بہت ہی ضروری عمل ہے۔ریلوے اشیا ءکی نقل و حمل یا پھر گڈز ٹرانسپورٹ کا بھی سستا ترین ذریعہ ہے اور کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے نہایت ہی ضروری ہے ،انسانی ترقی بھی مواصلات کے نظام کے ساتھ جڑی ہو ئی ہے ،اور اس وقت یہ بھی ضروری ہے کہ انسانی ترقی کو ممکن بنانے کے لیے آبادی کی بڑھتی ہو ئی شرح کو کنٹرول کیا جائے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب تک کو ئی بھی ملک اپنی آبادی کو کنٹرول نہ کرے تب تک یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے اور ہمارے سامنے اس حوالے سے چین ،بنگلہ دیش اور ایران کی مثالیں بھی موجود ہیں۔جب تک کہ آبادی کو کنٹرول نہیں کیا جاتا ہے تب تک وسائل ہمیشہ کم ہی رہیں گے اور ہم ہمیشہ ہی مسائل کا شکار رہیں گے۔نہ تو صحت کی سہولیات کافی ہو ں گی اور نہ ہی تعلیم کی سہولیات کافی پڑیں گی۔آج بھی ہماری قوم اس بات کی عملی مثال بنی ہو ئی ہے جہاں پر ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور پاکستان ان ممالک میں بھی شامل ہے جن میں زچہ اور بچہ کی موت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ابھی ہمارے الیکشن گزرے ہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں اس حوالے سے دو سطروں سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔یہ نہایت ہی افسوس ناک صورتحال ہے۔بہر حال آبادی کو کنٹرول کیے بغیر ترقی کرنا ناممکنات میں سے ہے ،آنے والی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سے ایک چیلنج ایک بڑی اپوزیشن کا چیلنج ہے ،لیکن یہ ایک سلور لائئنگ بھی ہو سکتی ہے کہ بڑی اپوزیشن کے دبا ﺅ میں مخلوط حکومت بہتر کا رکردگی کا مظاہر ہ کرے ،عوام کو امن چاہیے عوام کو سکون چاہیے ،اور سستی بجلی بھی چاہیے اور اس وقت تو ملک میں سستی بجلی لانے کے لیے سولر ہی واحد آپشن ہے ،اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ہمیں اس طرف بڑھنا ہو گا اس کے بغیر سستی بجلی کا خواب خواب ہی رہے گا۔ہر سطح پر ہی سول پینلز کے ذریعے ہی سستی بجلی کی پیدا وار کرنا ہو گی اور پھر حکومت یہ بجلی خرید کر بے شک صارفین کو بیچے تو صورتحا ل میں بہتری آسکتی ہے۔سولر سے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ گھروں میں پیدا ہونے والی سولر بجلی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جارہی ہے ،اور کبھی قیمتوں میں گڑبڑ کی جاتی ہے اور کبھی کچھ اور کیا جاتا ہے بہر حال ڈسکوز یہ سستی بجلی خریدے ،اور صنعتوں کو بھی بیچے جو کہ مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں ،پاکستان کو مہنگی توانائی کے گرداب سے نکالنے کی ضرورت ہے۔آئی پی پی معاہدوں کو ری وزٹ کیا جائے اور سستی بجلی کی بات کی جائے۔بیرونی قرضوں کا تو کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن بجلی کی قیمتیں تو کم کروائیں جاسکتی ہیں بجلی کمپنیوں سے بات کریں اور بجلی کی قیمتیں کم کروائیں اگر بجلی سستی ہو گی تو ہی صنعت چلے گی ،زراعت چلے گی اور کاروبار چلے گا۔