لاہور کے اچھرہ بازار میں چند روز پہلے جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اس نے ملک کے اندر اور باہر نہ صرف ذرائع ابلاغ میں جگہ پائی بلکہ عوامی سطح پر اس کے خلاف شدید ردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔ ایک خاتون کو عربی خطاطی سے مزین کُرتے میں ملبوس دیکھ کر جن لوگوں کی مذہبی حمیت جاگ اٹھی تھی انھیں شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ اس خاتون کے خلاف انھوں نے جس غیض و غضب کا اظہار کیا اس کی قیمت کیا ہے اور وہ کس کس کو ادا کرنی پڑے گی۔ اس واقعے کے ردعمل میں پچھلے تین دن میں لاکھوں لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹیں لگائیں جن میں مذہبی شدت پسندی سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا گیا۔ علاوہ ازیں، بے شمار پوسٹیں اس قسم کی بھی سامنے آئیں جن میں عربی زبان کو حوالہ بنا کر کوئی مزاحیہ بات کہی گئی۔ ہم چاہے نہ مانیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے ہر واقعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ردعمل بالعموم ہر عمر کے افراد اور بالخصوص نوجوان نسل میں ایک سطح پر مذہب سے بیزاری کا باعث بھی بن رہا ہے۔ اگر حقیقی علماءنے اس موقع پر آگے بڑھ کر مذہبی شدت پسندی کو لگام ڈالنے کے لیے اپنا کردار ادا نہ کیا تو کل اس ملک اور معاشرے میں مذہب کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کی کثرت کے لیے وہ بھی ذمہ دار گنے جائیں گے۔
ممکن ہے یہ باتیں کسی کو بہت سخت لگیں لیکن جو کچھ سوشل میڈیا پر لکھا اور کہا جارہا ہے وہ اس سے بھی کہیں زیادہ سخت ہے اور وہ سب کچھ کوئی اور نہیں بلکہ اسی ملک کے باشندے لکھ اور کہہ رہے ہیں۔ اس صورتحال کی تمام تر ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے خاتون کے کُرتے پر لکھے ہوئے الفاظ کو فوری طور پر قرآن مجید کی آیات کہہ کر ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اگر پولیس بروقت وہاں نہ پہنچتی تو شاید کوئی ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی جسے ہم ایک سانحہ قرار دیتے اور دنیا بھر سے ہم پر بے تحاشا طعن و تشنیع ہورہی ہوتی۔ ویسے اس وقت بھی ہم پر جو تنقید ہورہی ہے وہ کم ہرگز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اے ایس پی سیدہ شہربانو نقوی کی بجا طور پر تعریف و توصیف ہورہی ہے۔ انھوں نے واقعی غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو ساتھ لے کر اس خاتون کی جان اور ملک کی عزت بچائی ورنہ مشتعل ہجوم نے تو شاید یہ فیصلہ کر لیا ہوا تھا کہ اسے ملک اور مذہب کی عزت کی کوئی پروا نہیں، لہٰذا وہ اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرے گا۔
پاکستان میں شدت پسندی صرف مذہبی حوالے سے ہی نہیں بڑھ رہی بلکہ سیاسی اور سماجی معاملات میں ایک دوسرے سے اختلاف کرنے والوں کے رویوں سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری اکثریت معاشرتی آداب سے دور بلکہ بہت دور ہوتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف سیاسی نظریات رکھنے والے ایک دوسرے کے خلاف جو پوسٹیں لگاتے ہیں ان میں ایسی باتیں لکھی ہوتی ہیں جنھیں یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا، اور اختلاف کے لیے یہ پیرایہ اختیار کرنے والے صرف عوام ہی نہیں ہیں بلکہ کئی پڑھے لکھے اور اچھے اداروں میں قابلِ ذکر عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ نوشین پیروانی نامی ایک خاتون کینیڈا کی منیٹوبا یونیورسٹی سے بطور ایجوکیشنل ڈویلپر وابستہ ہیں۔ انھوں نے چند روز پہلے سماجی رابطے کے ذریعے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر مریم نواز شریف، مریم اورنگزیب، حنا پرویز بٹ اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی دیگر نمایاں خواتین کے خلاف ایک نہایت بے ہودہ پوسٹ شیئر کی۔ اس پوسٹ سے اس خاتون کی ذہنی اور اخلاقی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب اس درجے کے لوگ شدت پسندی اور تنگ نظری کا اظہار کرنے کے لیے اس قسم کی حرکتیں کرسکتے ہیں تو پھر عام آدمی سے کیا توقع کی جائے؟
شدت پسندی کسی بھی معاشرے کے لیے سمِ قاتل ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے مہذب انداز میں اختلاف کر ہی نہیں سکتے اور وہ دلیل کی بجائے گالی، تھپڑ، ڈنڈا اور گولی استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے تو ایسا نہیں تھا لیکن اب ہم بدقسمتی سے شدت پسندی کے دلدل میں پھنس چکے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہم اس میں مزید دھنس رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو اس صورتحال کے لیے صرف مذہب اور اس سے وابستہ لوگوں کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اسی طبقے سے وابستہ کچھ لوگ اچھرہ میں پیش آنے والے مذکورہ واقعے کی آڑ میں پاکستان کے وجود اور اس کی نظریاتی اساس پر بھی حملے کررہے ہیں۔ اسی طبقے سے تعلق رکھنے والی امریکا میں مقیم ایک پاکستانی نژاد خاتون نے ایکس پر لکھا کہ ’تقسیم نے جس شہر (لاہور) کو تباہ کیا تھا اسے کچھ معمول کی طرف اسی طرح لایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو ختم کردیا جائے یا اس کی نظریاتی اساس کو تبدیل کردیا جائے۔‘ اس خاتون کی اس زہر افشانی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے وجود اور اس کی نظریاتی اساس سے اس طبقے کو کتنی چڑ ہے۔
خیر، ہم اس وقت شدت پسندی کی جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اس میں سے ملک اور معاشرے کو نکالنے کے لیے حکومت نے تو جو اقدامات کرنے ہیں وہ اپنی جگہ ہیں لیکن اس حوالے سے معاشرے کے ہر طبقے کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری دانشوروں، علماءاور اساتذہ کی ہے کیونکہ لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ ان کی بات سنتے بھی ہیں اور اس پر کسی حد تک عمل بھی کرتے ہیں۔ اگر ہم نے شدت پسندی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے جلد ٹھوس اقدامات نہ کیے تو یہ ہمیں مزید نقصان پہنچائے گا اور توانا بھی ہوتا جائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری سستی کی وجہ سے یہ عفریت اس حد تک طاقتور ہو جائے کہ ہم اس پر قابو پانے کے قابل ہی نہ رہیں۔
ہماری سیاست میں ووٹ خریدنے کا ہنر
آغاز میں ہی وضاحت کر دوں کہ پاکستانی سیاست کا میں ماہر اور نہ ہی اس سیاست کے گرگٹ کی طرح بدلتے رنگوں کا مجھے ادراک ہے۔ تاہم اپنے 76 سالہ پاکستان کے ویسٹ منسٹر جمہوریت سے اخذ کئے رول ماڈل کا میں نے انتہائی قریب سے مطالعہ ضرور کیا ہے کہ برطانوی طرز معاشرت اور طرز سیاست میں شخصیات نہیں“ کام“ دیکھا جاتا ہے۔ اور یہی برطانوی جمہوریت کا وہ حسن ہے جس کی بناءپر دنیا برطانیہ کو آج بھی Mother of Democracy کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ انتخابات یہاں بھی ہوتے ہیں‘ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ یہاں بھی انتہائی طاقتور تصور کئے جاتے ہیں۔ غربت‘ بے روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی یہاں بھی زوروں پر ہے۔ فراڈ‘ دھاندلیاں اور محکمانہ اثرورسوخ یہاں بھی استعمال ہوتا ہے۔ بھکاری اور رات کو بے گھر افراد یہاں بھی پلوں کے نیچے سوتے ہیں۔ مگر! ان تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود برطانوی فلاحی نظام نے جمہوری رویوں کو مضبوط و طاقتور بنا رکھا ہے جبکہ ہمارے ہاں ”جمہوریت اور سیاست“ کا سرے سے تصور ہی تبدیل ہو چکا ہے۔
قومی سیاست کے بارے میں جو معلومات ہمارے رکشے والے‘ تانگے والے‘ ہئیر ڈریسر‘ چائے کے کھوکھے پر پتے کھیلتے گاہکوں‘ گلیوں محلوں اور شاہراہوں پر یہ صدا لگاتے ”دے جا سخیا راہ خدا‘ تینوں اللہ وزیر بنائے گا“ گداگروں اور بھکاریوں کے پاس ہوتی ہیں‘ ہمارا فیکلٹی‘ بیچلر اور ماسٹر ہولڈر ان معلومات سے کافی حد تک اس لئے بھی محروم ہے کہ ووٹ کی طاقت اور اہمیت کا ہمارے ہاں سرے سے تصور ہی موجود نہیں۔ جس قوم کا سیاست دان ووٹ خریدنے کا ہنر جانتا ہو‘ جہاں کا انسانی سمگلر برطانیہ بھجوانے کے ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے اور انگلستان میں قیام کیلئے 10 سے پندرہ ہزار پونڈ کا تقاضا کرتا ہو‘ ایسے ملک میں ووٹ کی طاقت‘ آئین اور جمہوریت میں استحکام کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
”پتھر پر لکیر“ انتخابات کے بعد عام تاثر یہی تھا کہ پاکستان کے سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی حالات میں قدرے اب بہتری آئیگی مگر گزشتہ 16 ماہ کی حکومت کے بعد اس مرتبہ پھر کولیشن حکومت کا قیام اس امر کی دلیل ہے کہ مہنگائی‘ غربت اور احساس محرومی کا شکار عوام کی ایک بڑی تعداد ووٹ کی طاقت اور اہمیت کا درست طور پر ادراک نہیں کر پائی۔ چند روپوں میں ووٹ خرید کر اس کا غیرآئینی استعمال ہی وہ بنیادی قومی جرم ہے جس سے زندہ دل اور غیور قومیں اپنی عزت و وقار کھو دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے دیہی علاقوں میں سادہ لوح ووٹروں پر آج بھی یہی فارمولا استعمال کیا جا رہا ہے۔ باقی اندازہ آپ اس واقعہ سے خود لگالیں۔
راولپنڈی ڈویژن کے سابق کمشنر لیاقت چٹھہ نے اللہ کو گواہ بنا کر انتخابی عمل میں ہونیوالی دھاندلی اور rigging Vote کے بارے میں جو انکشافات کئے اور جس طرح ریٹرننگ افسروں اور پی آر اوز کی کارکردگی کو بیان کیا دیگر برطانوی پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی انکی اس ”دلیری“ پر انکے حق میں دعا کی مگر! چند ہی گھنٹے گزرنے کے بعد انکے اس ارشاد نے کہ وہ ”بہکاوے“ میں آگئے اور مبینہ طور پر اب وہ پاکستانی عوام‘ الیکشن کمیشن اور عدلیہ سے غیرمشروط طور پر معافی کے طلب گار ہیں‘ مجھ سمیت دنیا بھر میں پھیلے محب وطن پاکستانیوں کو ورطہ¿ حیرت میں ڈال دیا۔ ایک انتہائی سینئر سی ایس ایس افسر سے ایسے طرز بیان کی کم از کم مجھے ہرگز توقع نہ تھی۔ سوال یہاں اٹھتا ہے کہ ”بہکاوے“ میں آنے سے قبل آخر وہ کون سے ایسے عوامل تھے جن کی وجہ سے سابق کمشنر پوری ذمہ داری اور سنجیدگی سے الزامات لگانے پر مجبور ہوئے؟ اس سوال کا جواب سابق کمشنر دے پائیں گے؟ یہ ہے دوسرا سوال عوام جس کے جواب کے منتظر ہیں۔
میرے منہ میں خاک مگر! یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جس روز قوم کو ”دعا اور دغا“ کے فرق کے مفہوم سے آشنائی ہو گئی ”میرا پاکستان“ دنیا کی عظیم اسلامی مملکت بن جائیگا۔ ملک کے سیاسی حالات بتا رہے ہیں کہ نئی مخلوط حکومت کا قیام آئندہ چند روز میں مکمل ہونے جا رہا ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی حلف برداری کے بعد پنجاب کی سیاسی تاریخ میں محترمہ مریم نواز پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔ اعزاز واقعی بہت بڑا ہے مگر! اس بڑے اعزاز کے ساتھ عوامی مسائل کا سائز اس سے بھی بڑا دکھائی دے رہا ہے۔ نامزد وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز صاحبہ نے مسند اقتدار پر براجمان ہونے سے قبل ہی یہ واضح کرتے ہوئے کہ انکی کھینچی متعدد ریڈلائنز میں کرپشن سب سے بڑی ریڈ لائن ہوگی۔ صوبائی اداروں سمیت پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر واضح کردیا ہے کہ انکی کسی بھی ریڈ لائن کو کراس کرنے والے ادارے کے اہلکاروں اور افسروں کیلئے وہ کسی بھی قسم کا نرم گوشہ نہیں رکھیں گی۔
عوام کے مسائل کو فوری حل کرنے کے جذبہ سے سرشار انہوں نے صوبائی منصوبوں کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے اور ترقیاتی کاموں کو مکمل کرنے کے ساتھ عوامی بھلائی کا پروگرام بھی دیا ہے تاہم انہوں نے اس بات کی کھل کر وضاحت نہیں کی سیاسی مخالفین سے انکی حکومت کیا سلوک روا رکھے گی؟ اسی طرح انہوں نے ”مفت بجلی“ دینے کے مبینہ اعلان کے باوجود صوبے کے غریب محنت کشوں اور بے روزگار افراد کیلئے کسی جامع پروگرام کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔ اسی طرح قومی ایئرلائن کی نجکاری کا معاملہ چونکہ وفاقی حکومت کے پاس ہے‘ اس لئے میری چھٹی حس اس خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ شاید فوری حل نہ ہو سکے کہ مخلوط حکومت میں مسلم لیگ (ن) پی آئی اے کو پرائیویٹ اور پیپلزپارٹی نجکاری کے خلاف ہے۔ دعا کرئیں اللہ خیر کرے۔ آمین۔